سوال:
میں سعودی عرب میں مزدوری کرتا ہوں۔ میرا عقد نکاح ہو گیا تھا، رخصتی میں دس دن باقی تھے، میں نے مارکیٹ میں بیوی کو تحفہ دیا۔ رخصتی سے دس دن پہلے میرا گھر میں جھگڑا ہوا۔ میں نے غصے میں تین بار بولا میری بیوی کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔ پھر میں ایک مولوی کے پاس گیا میں نے اس کو صورتحال بیان کی تو مولوی نے پوچھا کہ آپ دونوں کی خلوت ہوئی تھی یا نہیں؟ میں نے جواب میں بتایا کہ صرف مارکیٹ میں ملاقات ہوئی تھی، مولوی نے مجھے تجدیدِ نکاح کا حکم دیا، لیکن میں نے تجدید نکاح نہیں کیا۔ اس کے بعد ہماری شادی ہوگئی۔ ڈیڑھ سال بعد بچہ پیدا ہوا۔ شادی کے دو سال بعد گھر میں جھگڑا ہوگیا اور رشتہ داروں نے میری بیوی کو طعنہ دیا کہ تجھے تیرے شوہر نے شادی سے پہلے طلاق دی تھی۔ یہ بات میرے سسرال والوں کو پہنچ گئی ہے اور اب میں بہت زیادہ پریشان ہوں، مہربانی کرکے شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں رخصتی سے قبل اگر آپ دونوں کے درمیان صرف ایک مرتبہ مارکیٹ میں تنہائی کے بغیر ملاقات ہوئی تھی تو چونکہ رخصتی سے قبل بیوی کو متفرق طور پر تین طلاقیں دینے سے بیوی پہلی طلاق سے بائنہ ہوجاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے، جس کے بعد دوبارہ ایک ساتھ رہنے کے لیے تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے، نکاح کے بغیر ایک ساتھ رہنا ناجائز اور حرام ہوتا ہے۔
لہذا رخصتی سے دس دن پہلے بیوی کو متفرق طور پر تین طلاق کے مذکورہ الفاظ (میری بیوی کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے) کہنے سے بیوی پہلی طلاق (میری بیوی کو طلاق ہے) سے بائنہ ہوگئی تھی اور آپ دونوں کا نکاح اسی وقت ختم ہوگیا تھا، جس کے بعد ایک ساتھ رہنے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری تھا، لیکن نکاح کے بغیر رخصتی کرکے آپ دونوں ایک بہت بڑے فعلِ شنیع اور اب تک بڑے گناہ کی زندگی گزارنے کے مرتکب ہوئے ہیں، جس پر اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ دونوں کے درمیان فوراً جدائیگی ضروری ہے۔
البتہ آئندہ کے لیے اگر آپ دونوں ایک ساتھ رہنا چاہیں تو باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرکے دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں آپ کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار رہے گا، اس لیے طلاق کے معاملہ میں سخت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
المصنف لإبن أبي شيبة: (125/10، رقم الحديث: 18828، ط: المجلس العلمي)
حدثنا أبو بكر قال: نا ابن (عياش) عن مطرف عن الحكم في الرجل يقول لامرأته: أنت طالق، أنت طالق، (أنت طالق) (قال): بانت بالأولى (والأخريان) (ليستا بشيء) قال: قلت: من يقول هذا؟ قال: علي وزيد وغيرهما، يعني قبل أن يدخل بها.
الدر المختار مع رد المحتار: (286/3، ط: دار الفكر)
(قال لزوجته غير المدخول بها أنت طالق) يا زانية (ثلاثا) فلا حد ولا لعان لوقوع الثلاث عليها وهي زوجته ثم بانت بعده وكذا أنت طالق ثلاثا يا زانية إن شاء الله تعالى تعلق الاستثناء بالوصف بزازية (وقعن) لما تقرر أنه متى ذكر العدد كان الوقوع به .................(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)
(قوله وإن فرق بوصف) نحو أنت طالق واحدة وواحدة وواحدة، أو خبر نحو: أنت طالق طالق طالق، أو أجمل نحو: أنت طالق أنت طالق أنت طالق ح، ومثله في شرح الملتقى.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی