resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: شوہر کا بیوی کو یہ جملہ "اگر تم نے میرے سونے کے بعد موبائل استعمال کیا تو تم مجھ پر حرام ہو" کہنے کا حکم (24929-No)

سوال: میں ایک اہم مسئلہ آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں:
میرے گھر کے سونے جاگنے کے معمولات کافی متاثر ہو گئے تھے۔ اس پر میں نے اپنی بیوی سے اصلاح کی نیت سے بات کی تاکہ وہ جلدی سو جائے اور موبائل کا استعمال محدود کرے۔ تاہم بات چیت کے دوران بحث کی کیفیت پیدا ہو گئی اور میں نے غصے میں یہ جملہ کہہ دیا: ”اگر تم نے میرے سونے کے بعد موبائل استعمال کیا تو تم مجھ پر حرام ہو“۔
میں اللہ کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ میری نیت نہ طلاق کی تھی، نہ رشتہ ختم کرنے کی۔ میں صرف بیوی کو اس بات کی سنجیدگی کا احساس دلانا چاہتا تھا تاکہ گھر کا نظام درست ہو جائے۔ یہ جملہ صرف وقتی غصے میں اور بیوی کو روکنے کے لیے کہا گیا، کسی شرعی انجام یا طلاق کی نیت ہرگز نہیں تھی۔ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ میرے ان الفاظ کا شرعی حکم کیا ہوگا؟

جواب: واضح رہے کہ لفظِ حرام ہمارے عرف میں صریح بائن بن چکا ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس لفظ سے بلا نیت بھی طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شوہر نے موبائل استعمال کرنے پر لفظ حرام کے ساتھ طلاق معلق کی ہے، اس لیے مذکورہ عورت جب بھی شوہر کے سونے کے بعد موبائل استعمال کرے گی تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور ان کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔
ہاں! اگر میاں بیوی آپس کی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، البتہ اس صورت میں شوہر کو نکاح کے بعد آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (352/3، ط: دار الفكر)
ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية.

الجوھرة النیرة: (39/2، ط: المطبعة الخیریة)
(وإذا أضاف الطلاق إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق) هذا بالاتفاق؛ لأن الملك قائم في الحال والظاهر بقاؤه إلى وقت الشرط ولأنه إذا علقه بالشرط صار عند وجود الشرط كالمتكلم بالطلاق في ذلك الوقت فإذا وجد الشرط والمرأة في ملكه وقع الطلاق

کذا فی فتاوی عثمانی: (376/2، ط: معارف القرآن کراچی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce