سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! معلوم یہ کرنا تھا کہ فرض نماز میں امام نے اول صحیح پڑھا مگر مقتدی نے غلطی سے لقمہ دیا اور اس کو پڑھوا دیا ولم اکن بددعاء ربک شقیا اس کے بعد تفصیلی قراءت ہوئی جس سے مقدارِ قرات بہرحال پوری ہو گئی۔ کیا یہ غلطی شدید میں شمار ہوگی اور نماز دہرانی ہو گی یا خفیف میں شمار ہوگی اور مقدار کی وجہ سے نماز پوری ہو جائے گی؟ny ruling on musk .
جواب: سوال میں ذکر کردہ آیت سورہ مریم کی آیت نمبر 3 ہے، جس میں حضرت زکریا علیہ السلام کی اللہ تعالی سے مناجات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ اپنے رب سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ "اور میرے پروردگار! میں آپ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں ہوا "جبکہ پوچھی گئی صورت میں مذکورہ آیت میں تقدیم وتاخیر کرنےسے معنی یہ بن رہا ہے:"اور (اے اللہ!) تیرے پروردگار سے دعا کرکے میں کبھی نامراد نہیں ہوا"یعنی اللہ تعالی کے لیے رب کو ثابت کیا جارہا ہے۔(العیاذ بالله)
لہذا امام کا نماز میں "وَلَمۡ أَكُنۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيّٗا" کی جگہ " ولم اکن بددعاء ربک شقیا "پڑھنے سے معنی میں تغیر فاحش پیدا ہوجانے کی وجہ سے نماز فاسد ہوگئی ہے، جس کا دہرانا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (1/ 631، ط: دار الفکر)
والقاعدة عند المتقدمين أن ما غير المعنى تغييرا يكون اعتقاده كفرا يفسد في جميع ذلك، سواء كان في القرآن أو لا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی