سوال:
مفتی صاحب ! ملائیشیا میں کاروباری حضرات جب اپنے ملک واپس لوٹتے ہیں تو اپنا کاروبار سمیٹ لیتے ہیں اور جو قرضہ کسٹمر پر رہ جاتا ہے، وہ دوسرے کاروباری کو فروخت کر دیتے ہیں، مثلاً ایک لا کھ کا قرضہ اسی ہزار نقد میں فروخت کر دیتے ہیں، کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں وہ تمام قرض جو کسٹمرز کے ذمے ہے، اس کے بدلے دوسرے شخص سے بطورِ بیع نقد رقم کمی بیشی کے ساتھ لینے میں دو بڑی خرابیاں ہیں، ایک یہ کہ اس میں تمام قرض کسی ایسے شخص کو بیچا جارہا ہے، جو خود اس کے ذمے لازم نہیں ہے، یعنی اس میں بیع الدین من غیر من علیہ الدین کی خرابی ہے، جو شریعت کی نظر میں ناجائز ہے، اور دوسری خرابی یہ ہےکہ اس میں رقم کی کمی بیشی کرنے سے سود لازم آتا ہے، جو کہ حرام ہے، لہٰذا سوال میں مذکورہ طریقے پر معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے، البتہ بوقت ضرورت متبادل کے طور پر یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ وہ دکان دار جو اپنا کاروبار سمیٹنا چاہتا ہو، لیکن کسٹمرز کے ذمے فی الحال قرضے باقی ہوں، تو وہ ان قرضوں کو کسٹمرز سے وصول کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو اجرت (مثلاً بیس ہزار جو نقد رقم ہو ) پر وکیل بنادے، اور پھر اس سے اتنا قرض لے لے، جتنا قرض (مثلاً ایک لاکھ ) کسٹمرز کے ذمے باقی ہے، اور پھر اس سے یہ کہے کہ آپ کسٹمرز سے میرا قرض وصول کرکے اپنے پاس رکھ لیں، اس قرض کے بدلے جو میں نے آپ سے لیا ہے، لیکن مذکورہ بالا متبادل طریقہ اختیا ر کرتے ہوئے تین باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے، اور وہ تین باتیں درجِ ذیل ہیں :
1:ایک یہ کہ وکالت کے معاملے میں قرض دینے کی شرط نہ لگائی جائے، بلکہ الگ طور پر قرض کا معاملہ کیا جائے۔
2:دوسرا یہ کہ وکالت کی اجرت کسٹمرز کے ذمے موجود قرضوں سے متعین نہ کی جائے۔
3:تیسرا یہ کہ اگر وکیل کو کسٹمرز سے قرضے موصول نہ ہو ،تو وہ مؤکل (یعنی دکاندار ) سے اپنا قرضہ وصول کرے گا ۔
مذکورہ صورت حال میں بہتراور بےغبار طریقہ یہ ہے کہ دکاندار کسٹمرز سے قرضہ وصول کرنے کے لیے کسی شخص کو اجرت پر وکیل بنادے، اور پھر وہ وکیل کسٹمرز سے تمام قرضے وصول کر کے مالک تک پہنچا دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (كتاب البيوع، 148/5، ط: دار الكتب العلمية)
ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين؛ لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة، وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه، وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع، ولو شرط التسليم على المديون لا يصح أيضا؛ لأنه شرط التسليم على غير البائع فيكون شرطا فاسدا فيفسد البيع، ويجوز بيعه ممن عليه؛ لأن المانع هو العجز عن التسليم، ولا حاجة إلى التسليم ههنا، ونظير بيع المغصوب أنه يصح من الغاصب، ولا يصح من غيره إذا كان الغاصب منكرا، ولا بينة للمالك.
البحر الرائق: (كتاب البيع، شرط العقد، 280/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين.
ويجوز من المديون لعدم الحاجة إلى التسليم، ولم ينعقد بيع المغصوب من غير الغاصب إذا كان الغاصب منكرا له ولا بينة وإلى هنا صارت شرائط الانعقاد أحد عشر اثنان في العاقد واثنان في العقد وواحد في مكانه وستة في المعقود عليه.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (أحكام البيع بالتقسيط، ص: 24، ط: دار القلم)
وإن خصم الكمبيالة بهذا الشكل غير جائز شرعا، إما لكونه بيع الدين من غير من عليه الدين، أو لأنه من قبيل بيع النقود بالنقود متفاضلة ومؤجلة، وحرمته منصوصة في أحاديث ربا الفضل.
ولكن هذه المعاملة يمكن تصحيحها بتغيير طريقها وذلك أن يوكل صاحب الكمبيالة البنك باستيفاء دينه من المشتري (وهو مصدر الكمبيالة) ويدفع إليه أجرة على ذلك، ثم يستقرض منه مبلغ الكمبيالة، ويأذن له أن يستوفي هذا القرض مما يقبض من المشتري بعد نضج الكمبيالة، فتكون هناك معاملتان مستقلتان: الأولى معاملة التوكيل باستيفاء الدين بالأجرة المعينة، والثانية: معاملة الاستقراض من البنك، والإذن باستيفاء القرض من الدين المرجو حصوله بعد نضج الكمبيالة، فتصح كلتا المعاملتين على أسس شرعية، أما الأولى، فلكونها توكيلا بالأجرة، وذلك جائز، وأما الثانية، فلكونها استقراضا من غير شرط زيادة، وهو جائز أيضا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی