عنوان: دوران نماز آمین آہستہ پڑھنے کا حکم(2519-No)

سوال: مفتی صاحب! نماز میں دل میں آمین کہنے کی کیا دلیل ہے؟

جواب: واضح رہے کہ جہری نمازوں میں سورہ الفاتحہ کی قراءت کے بعد آمین بالجہر (بلند آواز سے آمین کہنا) اور آمین بالسر (آہستہ آواز سے آمین) کہنا، دونوں طرح جائز ہے، دونوں میں کسی ایک پر بھی عمل کیا جائےز تو نماز ادا ہوجاتی ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، کیونکہ دونوں طریقوں کا ثبوت احادیث مبارکہ کے ذخیرے سے ملتا ہے، لیکن فقہاء امت کا اس بارے میں اختلاف زمانہ قدیم سے رہا ہے کہ ان دونوں طریقوں میں زیادہ افضل اور اولی کونسا طریقہ ہے؟
چنانچہ فقہاء امت میں سے ایک طبقہ آمین بالجہر کا قائل ہے اور دوسرا طبقہ آمین بالسر کا قائل ہے، حضرتِ امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ کے نزدیک آمین بالسر (آہستہ آواز میں آمین کہنا) افضل ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دلائل اصول کی روشنی میں راجح (باوزن) ہیں، جن میں سے چند دلائل کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے:
"آمین بالسر" سے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی کے دلائل:
پہلی دلیل
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین جھرا کہنا، بغرض تعلیم تھا،
"حضرت وائل سے روایت کی ہے، ا س روایت میں ہے کہ حضور اکرمﷺنے غیر المغضوب علیم ولا الضالین پڑھ کر آمین کہی اور آواز کو بلند کیا میرا گمان یہ ہے کہ حضورﷺکرم ؓ نے ہم کو تعلم دینے کی غرض سے بلند آواز سے آمین کہی". (معارف السنن شرح ترمذی باب ماجآء فی التامین ص ۴۰۶ ج۲۲، از محدث کبیر مولانا یوسف بنوری)
معلوم ہوا کہ آمین کو جہراً کہنا امت کی تعلیم کے لئے تھا، اور جب امت کو تعلیم ہوگئی، تو حضورﷺنے سرا کہنا شروع کر دیا

دوسری دلیل:
"روی شعبہ ھذا الحدیث عن سلمہ بن کہیل عن حجر ابی العنبس عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ ان النبی ﷺ قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال آمین وخفض بھا صوتہ".
ترجمہ:
شعبہ نے اس حدیث کو سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے کہ علقمہ اپنے والد حضرت وائل ؓسے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھ کر پست آواز سے آمین کہی".
(ترمذی شریف ج۱ ص ۳۴ ،باب ماجاء فی التامین)
تیسری دلیل:
زجاجۃ المصابیح میں ہے:
" عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ انہ صلی مع النبی ﷺفلما بلغ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال آمین و خفض بھا صوتہ رواہ الحاکم وقال صحیح الا سناد ولم یخرجاہ".
ترجمہ:
یعنی علقمہ بن وائل ؓ اپنے والد وائل ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺکے پیچھے نماز پڑھی ہے، جب رسول اﷲﷺغیر المغضوب علیہم ولا الضالین پر پہنچے تو آپ نے آہستہ آمین کہی، اس کو حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس روایت کے متعلق فرمایا ہے صحیح الاسناد، اس کی سند صحیح ہے یہ بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق ہے، مگر بخاری ومسلم نے اس کی تخریج نہیں کی۔(زجاجۃ المصابیح ص۲۵۸ج۱ باب القرأۃ فی الصلوٰۃ)
چوتھی دلیل:
مصنف عبدالرزاق میں ہے: "عبدالرزاق عن الثوری عن منصور عن ابراہیم قال خمس یخفیھن سبحانک وبحمدک والتعوذ و بسم اﷲالرحمن الرحیم وآمین واللھم ربنا ولک الحمد"۔
ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ پانچ چیزیں (امام کو )آہستہ آواز سے کہنی چاہئیں "سبحانک اللھم وبحمد ک اعوذ باﷲ، بسم اﷲالرحمن الرحیم اور اللھم ربنا ولک الحمد".
(مصنف عبدالرزاق ج۲ ص ۸۷)
پانچویں دلیل:
"عن ابراہیم قال قال عمر رضی اﷲعنہ اربع یخفیھن الا مام، التعوذ وبسم اﷲالرحمن الرحیم وآمین واللھم ربنا ولک الحمد (ابن جریر) فتخلص ان اخفاء التامین ھو مذہب عمرو علی وعبد اﷲوابراہیم النخعی وجمہور الصحابۃ والتابعین وسائر اھل الکوفۃ ".
ترجمہ:
یعنی ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا امام چار چیزیں آہستہ آواز سے کہے اعوذباللہ،بسم اﷲالرحمٰن الرحیم، آمین اور اللہم ربنا لک الحمد ، (ابن جریر) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آمین آہستہ آواز سے کہنا یہ حضرت عمر ؓ ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اﷲؓ، ابراہیم نخعی ، جمہور صحابہ و تابعین ؒ اور تمام اہل کوفہ کا مذہب ہے۔(معارف السنن شرح ترمذی ص۴۱۳،ج۲ باب ماجآ ء فی التامین)
آہستہ آمین کہنے کی مضبوط دلیل:
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آمین سورۂ فاتحہ یا قرآن کا جز نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں آمین کو لکھا نہیں جاتا اور آمین دعا ہے، اور دعاء مخفی اور آہستہ آواز سے ہونی چاہئے، قرآن میں ہے "ادعوا ربکم تضرعاً وخفیۃ" اپنے رب کو عاجزی و آہستگی سے پکارو، اس آیت کریمہ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ آمین سراً کہنا چاہئے ۔
زجاجۃ المصابیح میں ہے "وبالقیاس علی سائر الاذکار والادعیۃ ولان آمین لیس من القرآن اجماعاً فلا ینبغی ان یکون علی صوت القرآن وباخفائھا یقع التمییز بین القرآن وغیرہ فانہ اذا جھر بھا مع الجھر بالفاتحۃ یلبس انھا من القرآن کماانہ لا یجوز کتابتہ فی المصحف ولھذا اجمعو علی اخفاء التعوذ لکونہ لیس من القرآن".
(زجاجۃ المصابیح حاشیہ ج۱ ص ۲۵۸ باب القرآۃ فی الصلوٰۃ)

خلاصہ کلام:
حنفیہ کے نزدیک امام کے {وَلاَ الضَّآلِّیْنَ} کہنے پر مقتدی کو آہستہ آمین کہنی چاہئے، یہی افضل ہے۔ بعض احادیث اور متعدد صحابہ کے آثار سے اسی کی تائید ہوتی ہے، اور جن بعض روایات میں جہراً آمین کہنے کا ذکر ہے وہ زیادہ سے زیادہ بیانِ جواز پر محمول ہے، درج ذیل تمام کتب میں روایات آمین بالسر پر دلیل ہیں:
(سنن الترمذي ۱؍۵۸ رقم: ۲۴۸، مسند أحمد ۴؍۳۱۶، مسند أبي داؤد الطیالسي ۱۳۸، سنن الدار قطني ۱؍۳۳۴، المعجم الکبیر للطبراني ۲۲؍۴۵ رقم: ۱۱۲)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1506 Nov 15, 2019
doran e namaz / namaaz aameen / ameen aahista parhne / parhney ka hukum / hukm, Ruling on reciting Amen slowly during prayers

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.