عنوان: ملازمت کے دوران ملازم کا مالک کا ادب واحترام کرنا ایمان اور توکل کے منافی نہیں ہے۔ (2556-No)

سوال: جب یہ بات مقرر ہے کہ انسان کے مقدر میں جتنا رزق لکھ دیا گیا ہے، وہ اس کو مل کر ہی رہتا ہے تو پھر لوگ انسانوں کے آگے اس خوف سے کیوں جھکے رہتے ہیں کہ کہیں نوکری سے نکال نہ دیے جائیں، کہیں یہ اللہ پر توکل اور ایمان کے منافی تو نہیں ہے؟

جواب: واضح رہے کہ ناجائز کاموں میں کسی کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے، لہذا اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آ جائے کہ کسی بڑے کے کہنے پر گناہ کے کام میں مشغول ہونا پڑے تو ایسے وقت اللہ پاک کے رازق ہونے کےعقیدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے اور اگر اس کے نتیجے میں ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑے تب بھی کوئی فکر کی بات نہیں ہے، کیونکہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو اپنے مقدر کا رزق ملنے کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا عین ایمانی تقاضا ہے، اس پختہ یقین کے ساتھ حصول رزق کی فکر کرنی چاہیے۔نیز ملازمت کے دوران مالک اور ملازم کے درمیان ادب و احترام کا جو تعلق ہونا چاہیے، اس کی رعایت کرنا بھی ضروری ہے، باوجود اس کے کہ وہ انسان کے رزق کے مالک نہیں ہوتے ہیں، لیکن جب عقیدہ درست ہو تو ادب واحترام کے تعلق سے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
ہاں! بلا وجہ اپنی انا کا مظاہرہ کرنا اور کمپنی کے مالک کے ساتھ برابری کی سطح کا مظاہرہ کرنا اپنی روزی کے اسباب کو ختم کرنے کے مترادف ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1707، 209/4، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلا سمع عليه ولا طاعة»عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلا سمع عليه ولا طاعة».

بهجة قلوب الأبرار و قرة عيون الأخيار في شرح جوامع الأخبار: (ص: 43، رقم الحديث: 15، ط: مكتبة الرشد)
يا له من حديث حكيم. فيه الحث لأمته على مراعاة الحكمة. فإن الحكمة وضع الأشياء مواضعها، وتنزيلها منازلها. والله تعالى حكيم في خلقه وتقديره، وحكيم في شرعه وأمره ونهيه وقد أمر عباده بالحكمة ومراعاتها في كل شيء وأوامر النبي صلى الله عليه وسلم وإرشاداته كلها تدور على الحكمة.
فمنها: هذا الحديث الجامع، إذ أمر أن ننزل الناس منازلهم. وذلك في جميع المعاملات، وجميع المخاطبات. والتعلم والتعليم.
فمن ذلك: أن الناس قسمان: قسم لهم حق خاص، كالوالدين والأولاد والأقارب، والجيران والأصحاب والعلماء، والمحسنين بحسب إحسانهم العام والخاص. فهذا القسم تنزيلهم منازلهم: القيام بحقوقهم المعروفة شرعا وعرفا، من البر والصلة والإحسان والتوقير والوفاء والمواساة، وجميع ما لهم من الحقوق، فهؤلاء يميزون عن غيرهم بهذه الحقوق الخاصة.
وقسم ليس لهم مزية اختصاص بحق خاص، وإنما لهم حق الإسلام وحق الإنسانية. فهؤلاء حقهم المشترك: أن تمنع عنهم الأذى والضرر بقول أو فعل، وأن تحب للمسلمين ما تحب لنفسك من الخير وتكره لهم ما تكره لها من الشر. بل يجب منع الأذى عن جميع نوع الإنسان وإيصال ما تقدر عليه لهم من الإحسان.ومما يدخل في هذا: أن يعاشر الخلق بحسب منازلهم. فالكبير له التوقير والاحترام. والصغير يعامله بالرحمة والرقة المناسب لحاله، والنظير يعامله بم يحب أن يعامله به.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1520 Nov 18, 2019
asbab per bharosa karne / karney walo ka shari / sharai hokom / hokum, Shari'ah ruling on those who rely on causes

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.