سوال:
ایک صاحب عرض کر رہے ہیں کہ اہل کتاب (غیر مسلم) اچھے اعمال کر کے جنت میں جا سکتے ہیں، اگرچہ ان کی موت کفر پر ہوئی ہو۔ براہ کرم آپ وضاحت فرمادیں کہ کیا ان کی یہ بات ٹھیک ہے؟
جواب: واضح رہے کہ آخرت میں نیک اعمال کی قبولیت کی اولین شرط اللہ تعالٰی، اس کے پیغمبروں اور قیامت کے دن پر ایمان لانا ہے، ان تمام باتوں پر ایمان لائے بغیر کسی بھی نیک عمل کا بدلہ آخرت میں جنت کی صورت میں نہیں ملے گا۔ قرآن کریم کا واضح اعلان ہے:وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ". (سورة آل عمران، رقم الآیة: ۸۵)
ترجمہ: جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا، تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک رشتہ دار سے متعلق جس کی موت کفر پر ہوئی تھی، حضورﷺسے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! زمانہٴجاہلیت میں(یعنی بحالت کفر) انہوں نے بہت سارے نیک کام کیے تھے، وہ فقراء کو کھانا کھلاتے تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے وغیرہ، تو کیا ان کے یہ نیک اعمال کل قیامت کے دن انہیں فائدہ دیں گے؟آپﷺنے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: نہیں، ان کے نیک اعمال قیامت کے دن انہیں کچھ نفع نہیں دیں گے، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا نہیں کی تھی کہ اے پروردگار قیامت کے دن میری مغفرت فرما۔(یعنی وہ آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا تھا) (فتح الملہم شرح مسلم: تتمة کتاب الإیمان/ باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لا ینفعہ عمل)
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے ”ایمان“ کا ہونا اولین شرط ہے، اس کے بغیر انسان کتنی بھی عبادات کرلے، نیکیوں کے انبار لگا دے، آخرت میں ان نیکیوں کا اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ وہ خسارے میں ہوگا۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اسلام اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرے گا، اے پروردگار! آپ کا نام سلام ہے اور میں اسلام ہوں تو اللہ تعالٰی ارشاد فرمائیں گے: بے شک تو ہی بھلائی پر ہے، میں آج کے دن( لوگوں کو ان کے اعمال ) کا (اچھا یا برا) بدلہ تیرے ذریعے دوں گا،(یعنی اگر اچھے عمل ہوں گے، اور ساتھ ساتھ اسلام بھی ہوگا تو اچھا بدلہ ملے گا اور اگر نیک اعمال کے ساتھ اسلام نہیں ہوگا، تو اس کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے) (تفسیر ابن کثیر، سورة آل عمران)
نیز نیک اعمال کی مثال جسم کے اعضاء کی طرح ہے اور ایمان کی مثال روح کی طرح ہے، جس طرح روح کے بغیر جسم کے تمام اعضاء باوجود حسی طور پر موجود ہونے کے بے کار ہیں، اسی طرح ایمان کے بغیر نیک اعمال بھی بے فائدہ ہوتے ہیں، آخرت میں کچھ کام نہ دیں گے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ ایک ملک کا کوئی شہری اس ملک کے بنیادی قوانین کو تسلیم نہ کرتا ہو، اس ملک کے آئین کو نہ مانتا ہو، لیکن ساتھ ساتھ وہ بہت اعلی تعلیم یافتہ ہو، لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہو اوروہ اس ملک کے لوگوں کی بھلائی کے بہت سے کام بھی کرتا ہو، تب بھی وہ ریاست اس کو اپنی مملکت کا باغی ٹھہراتی ہے اور باغی کو اس کی خوبیوں کے باوجود سزا ملتی ہے۔
ایسے ہی جو لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں، وہ لوگ بھی اللہ تعالٰی کے باغی ہیں اور آخرت میں ان کی نیکیاں ان کے کام نہیں آئیں گی۔
ہاں! البتہ ایسے کفار جو دنیا میں نیک کام کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں کسی نہ کسی شکل میں عطا فرما دیتے ہیں، جیسا کہ بسا اوقات ان کے نیک کاموں کے صلہ میں انہیں ایمان کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں اور کبھی دنیا میں ان کے نیک اعمال کے عوض لوگوں میں ان کا ذکر خیر عام کردیتے ہیں کہ لوگوں میں ان کے حسنِ کارکردگی کا چرچا عام ہوجاتا ہے اور کبھی ان کی روزی میں فراخی اور کشادگی پیدا کردیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح الملہم شرح مسلم: (تتمة کتاب الإیمان/ باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لا ینفعہ عمل)
عن عائشة قالت: قلت یا رسول اللہ ابن جوعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فہل ذلک نافعة؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین․ قال الشارح: أي لم یکن مصدقا بالبعث ومن لم یصدق بہ کافر ولا ینفعہ عمل"
تفسیر ابن کثیر، سورة آل عمران
عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تجیء الأعمال یوم القیامة، -إلی أن قال- ثم یجیء الإسلام، فیقول: یا رب، أنت السلام، وأنا الإسلام، فیقول اللہ تعالی: إنک علی خیر، بک الیوم آخذ، وبک أعطی، قال اللہ تعالی: وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ".
فتح الملھم شرح صحیح مسلم: (تتمة کتاب الإیمان، باب حکم عمل الکافر إذا أسلم بعدہ)
قال في فتح الملہم تحت حدیث حکیم ابن حزام أسلمت علی ما أسلفت: قال المازري: إن الکافر لا یصح منہ التقرب فلا یثاب علی طاعتہ لأن من شرط المتقرب أن یکون عارفصا لمن یتقرب إلیہ والکافر لیس کذلک، فالعماء حمدلوا ہذا الحدیث علی وجوہگ منہا․ إنک اکتسبت بذلک ثناء جمیلاً فہو باق لک في الإسلام أ إنک ببرکة فعل الخیر ہدیت إلی الإسلام لأن المبادی عنوان الغایات أو إنک بتلک الأفعال رزقت الرزق الواسع".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی