عنوان: عیسائی مرد سے نکاح کرنے والی مسلمان عورت کا حکم ہے۔(2639-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! میری فرسٹ کزن تایا كی بیٹی امریکہ میں رہتی ہے، 30 نومبر کو وہ ایک کرسچن امریکن شخص سے “ شادی” کر رہی ہے اور شادی كے پروگرام کا کارڈ پورے خاندان کو بھیجا ہے، میں نے جب اس عمل كی سخت مزاحمت كی تو جواب یہ ملا کہ اھل کتاب مرد سے شادی كی ممانعت نہیں آئی اور اس میں اختلاف بھی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ میری کزن جو اس عمل کو کر رہی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور جو مسلمان رشتہ دار رشتہ نبھانے كے خاطر یا اس عمل کو جائز سمجھ کر کر رہے ہیں، ان کی کیا حیثیت ہوگی ؟

جواب: واضح رہے کہ مسلمان عورت کے لیے کسی بھی غیر مسلم مرد (چاہے وہ عیسائی ہی کیوں نہ ہو) کے ساتھ نکاح کرنا بالاتفاق حرام ہے،اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
صورت مسئلہ میں جو لڑکی ایک عیسائی مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے، اور اس کے خاندان والے بھی اس پر راضی ہیں، تو شرعی حکم معلوم ہونے کے بعد ان پر لازم ہے کہ وہ اس شادی کرانے اور اس میں شرکت کرنے سے مکمل اجتناب کریں، لیکن اگر وہ شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود اس شادی کرنے اورکرانے سے باز نہیں آتے، اس صورت میں وہ شریعت کی نظرمیں حرام کام کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے سخت مجرم اور گناہگار ہوں گے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ اس شادی کا شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود حلال سمجھ کر شادی کرینگے یا حلال سمجھ کر شریک ہونگے، اس صورت میں (نعوذ باللہ) ان کا گناہ کفر تک پہنچ جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

التفسیر الطبری: (711/3)
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [البقرة: ٢٢١]
اخْتَلَفَ أَهْلُ التَّأْوِيلِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: هَلْ نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا كُلُّ مُشْرِكَةٍ، أَمْ مُرَادًا بِحُكْمِهَا بَعْضَ الْمُشْرِكَاتِ دُونَ بَعْضٍ؟ وَهَلْ نُسِخَ مِنْهَا بَعْدَ وُجُوبِ الْحُكْمِ بِهَا شَيْءٌ أَمْ لَا؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا تَحْرِيمُ نِكَاحِ كُلِّ مُشْرِكَةٍ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ مِنْ أَيِّ أَجْنَاسِ الشِّرْكِ كَانَتْ عَابِدَةَ وَثَنٍ أَوْ كَانَتْ يَهُودِيَّةً أَوْ نَصْرَانِيَّةً أَوْ مَجُوسِيَّةً أَوْ مِنْ غَيْرِهِمْ مِنْ أَصْنَافِ الشِّرْكِ، ثُمَّ نُسِخَ تَحْرِيمُ نِكَاحِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِقَوْلِهِ: {يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ} [المائدة: ٤] إِلَى {وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [المائدة: ٥]

بدائع الصنائع: (کتاب النکاح، فصل في عدم نکاح الکافر المسلمۃ، 445/3)
ومنہا : إسلام الرجل إذا کانت المرأۃ مسلمۃ فلا یجوز إنکاح المؤمنۃ الکافر لقولہ تعالی : {ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا} - ولأن في إنکاح المؤمنۃ الکافر خوف وقوع المؤمنۃ في الکفر ، لأن الزوج یدعوہا إلی دینہ، والنساء في العادات یتبعن الرجال فیما یؤثروا من الأفعال ویقلدونہم في الدین إلیہ ، وقعت الإشارۃفي آخر الآیۃ بقولہ عز وجل : {اولٓئک یدعون إلی النار} ۔ لأنہم یدعون المؤمنات إلی الکفر ، والدعاء إلی الکفر دعاء إلی النار ، لأن الکفر یوجب النار ، فکان نکاح الکافر المسلمۃ سببًا داعیًا إلی الحرام فکان حرامًا ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1862 Nov 26, 2019
esae / esaye mard se / sey nikah karne / karney wali musalman orat ka hokom / hokum he., Ruling on a Muslim woman marrying a Christian man.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.