سوال:
میری والدہ کا 3 ماہ قبل انتقال ہو گیا ہے اور میری والدہ دین اور دُنیا کی معلومات میں ابتدائی سطح پر تھیں۔ انہوں نے جائیداد کے ایک بڑے حصے کی میرے بھائیوں اور میرے والد کے حق میں وصیت کی تھی، میرے بھائی اور والد زندہ ہیں۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا میں اپنی والدہ کی وصیت کو قبول کروں؟کیونکہ میری بات یہاں سب سے پہلے اللہ، رسول اور والدین خاص طور پر ماں کی طرف ہے۔ شاید میری والدہ کا علم کافی نہیں تھا اور ہم شریعت کے مطابق وصیت کر سکتے ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ وارث کے لیے وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے، لہذا ورثاء پر ایسی وصیت پر عمل کرنا لازم نہیں ہے۔
ہاں! اگر تمام ورثاء بخوشی اس وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ ہوں تو اس کی اجازت ہے، ورنہ ہر وارث کو اس کا وہی حصہ دینا ضروری ہے، جو شریعت نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں چونکہ شوہر اور بیٹا شرعی وارث ہے، مرحومہ کا ان کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں تھا، لہذا ان کو صرف ان کے شرعی حصہ کے مطابق حصہ ملے گا، البتہ اگر دیگر عاقل بالغ ورثاء ان کے حق میں مرحومہ کی وصیت نافذ کرنے کے لیے بخوشی راضی ہوں تو پھر ان کے حق میں وصیت نافذ کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء لا وصية لوارث، رقم الحدیث:2121، ط: دارالغرب الاسلامي)
عن عمرو بن خارجة، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب على ناقته، وانا تحت جرانها، وهي تقصع بجرتها، وإن لعابها يسيل بين كتفي فسمعته يقول: " إن الله اعطى كل ذي حق حقه، ولا وصية لوارث
مشکاۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 3074)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "لا وصیة لوارث إلا أن یشاء الورثة".
عمدۃ القاری: (باب لا وصیۃ للوارث، 55/14، ط: دار الکتب العلمیة)
وقال المنذري: "إنما یبطل الوصیة للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثة، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی