resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بالغ لڑکی کا اپنی رضامندی سے غیر کفو میں نکاح کرنے کا حکم/ شوہر کا رخصتی نہ کرنے اور نان و نفقہ نہ دینے کی صورت میں فسخ نکاح (27076-No)

سوال: میرے والد (مرحوم) کا انتقال ہو چکا ہے، میرا نکاح میرے بڑوں کی رضامندی کے بغیر 2019 میں ایک لڑکے سے انجام پایا تھا، وہ لڑکا کفو (دینداری اور مال و دولت) میں ہم سے کم تھا، نکاح کے بعد اب تک میری رخصتی نہیں ہو سکی، نہ خلوتِ صحیحہ اور نہ ہی کسی قسم کا نان نفقہ یا شوہر کی طرف سے شرعی حقوق کی ادائیگی کا سلسلہ ہوا۔ یہ رشتہ میری والدہ کی رضامندی کے بغیر بعض دباؤ کے تحت طے پایا تھا۔
اس نکاح کے بعد نہ لڑکے کی طرف سے کوئی رابطہ، تعاون یا دل چسپی رہی، نہ کوئی شوہر ہونے کے فرائض انجام دیے گئے اور نہ ہی معاشرتی یا دینی لحاظ سے کوئی تعلق قائم ہوا، اب ہمارے خاندانی مسائل اور حالات ایسے ہیں کہ میں ان کے ساتھ نبھا نہیں سکتی۔
میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا بڑوں کی اجازت کے بغیر اس لڑکے کے ساتھ (غیر کفو) میں میرا نکاح ہوا ہے یا نہیں؟ اگر ہوا ہے تو میں اس نکاح کو فسخ کرنا چاہتی ہوں، جبکہ لڑکے والے مجھے زندگی بھر لٹکانا چاہ رہے ہیں، یعنی نہ خلع و طلاق دے رہے ہیں اور نہ ہی رخصتی کروا رہے ہیں تو اس صورت میں فسخ نکاح کیسے ہوگا؟ یاد رہے کہ ہمارے پاس نکاح نامہ یا کسی قسم کا تحریری ثبوت نکاح کے لیے نہیں ہے۔
تنقیح :
محترمہ آپ کا سوال مکمل نہیں ہے، مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات پوری وضاحت اور مکمل دیانت داری کے ساتھ دیں:
1) جس وقت آپ کا نکاح ہوا تھا اس وقت آپ بالغہ تھی یا نابالغہ؟
2) نکاح آپ نے کس طرح قبول کیا تھا ؟
3) بڑوں سے کون مراد ہے ؟ اس رشتے کی تعیین کریں۔
4) دین داری میں کمی سے کیا مراد ہے؟
5) کیا مرد اس قدر غریب ہے کہ بوقت نکاح وہ مہر اور نان نفقہ وغیرہ پر قادر نہیں تھا؟
6) اب تک رخصتی نہ ہونے کی کیا وجہ ہے اور رکاوٹ کس کی طرف سے ہے؟
ان سوالات کے جوابات دینے کے بعد ہی آپ کی شرعی رہنمائی کی جاسکے گی۔

جواب: واضح رہے کہ بے دین اور غریب (جو لڑکی کا مہر معجّل اور نان و نفقہ برداشت نہ کرسکتا ہو) لڑکا دین دار اور مال دار لڑکی کا کفؤ نہیں ہوتا ہے اور غیر کفؤ میں کیا گیا نکاح ولی کی رضامندی کے بغیر اگرچہ منعقد ہوجاتا ہے، لیکن لڑکی کے اولیاء کو بچے کی پیدائش سے قبل عدالت کے ذریعے یہ نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں شرعاً لڑکی کا نکاح منعقد ہوچکا ہے، لیکن اگر سوال میں ذکر کردہ معلومات درست ہوں تو چونکہ لڑکا لڑکی کا کفو نہیں ہے، اس لیے اس کا ولی نکاح فسخ کراسکتا ہے، باپ کی وفات کی صورت میں ولایت کا حق دادا کو حاصل ہوتا ہے، اگر دادا نہ ہو لڑکی کے سگے بھائی کو، اگر وہ بھی نہ ہو تو باپ شریک بھائی، اگر وہ بھی نہ ہو تو سگے بھائی کا بیٹا (یعنی بھتیجا)، اگر وہ نہ ہو تو باپ شریک بھائی کا بیٹا، اور اگر وہ نہ ہو تو اس کے بعد چچا کو نکاح کے فسخ کرنے کا حق حاصل ہوگا، فسخ نکاح سے پہلے لڑکی کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
تاہم اگر اولیاء نکاح فسخ کرنے کی طرف توجہ نہ دیتے ہوں جیسا کہ سوال سے واضح ہے تو عورت کے لیے نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت سے نکاح فسخ کرانے کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ اگر واقعتاً رخصتی میں رکاوٹ شوہر کی طرف سے ہے اور بیوی رخصت ہونے کے لیے تیار ہے تو ایسی صورت میں بیوی کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، لیکن چونکہ شوہر بیوی کے شرعی حقوق ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور عورت کے نان و نفقہ کا کوئی مناسب انتظام بھی ممکن نہ ہو یا نفقہ کا انتظام ہوسکتا ہے، لیکن شوہر سے دور رہنے کی وجہ سے گناہ میں ملوث ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو شرعاً عورت کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے نکاح فسخ کرادے۔
جس کا طریقہ کار ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:
سب سے پہلے عورت مسلمان جج کی عدالت میں نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر نکاح فسخ کرنے کا مقدمہ دائر کرے اور پھر گواہوں کے ذریعے شوہر سے اپنا نکاح اور باوجود وسعت کے شوہر کا نان نفقہ نہ دینا ثابت کرے، اس کے بعد جج شوہر کو عدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس جاری کرے، اگر وہ عدالت میں آجاتا ہے تو جج اس سے کہے کہ یا تو اپنی بیوی کو نان نفقہ دو یا اسے طلاق یا خلع دو، ورنہ ہم تم دونوں کے درمیان تفریق کردیں گے، اب اگر شوہر نہ نان نفقہ دیتا ہے اور نہ ہی طلاق یا خلع دیتا ہے تو مسلمان جج ان کے درمیان تفریق کرادے، لیکن اگر بار بار نوٹس کے باجود شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو مسلمان جج بیوی کے گواہوں کی بنیاد پر میاں بیوی کے درمیان نکاح فسخ کرکے تفریق کرادے، تفریق کے بعد عورت عدت گزار کر کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

بدائع الصنائع: (317/2، ط: دار الكتب العلمية)
وأما الثاني فالنكاح الذي الكفاءة فيه شرط لزومه هو إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء لا يلزم»حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم. وللأولياء حق الاعتراض؛ لأن في الكفاءة حقا للأولياء؛ لأنهم ينتفعون بذلك ألا ترى أنهم يتفاخرون بعلو نسب الختن، ويتعيرون بدناءة نسبه، فيتضررون بذلك، فكان لهم أن يدفعوا الضرر عن أنفسهم بالاعتراض

الھندية: (283/1، ط: دار الفکر)
وأقرب الأولياء إلى المرأة الابن ثم ابن الابن، وإن سفل ثم الأب ثم الجد أبو الأب، وإن علا، كذا في المحيط. ... ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب، وإن سفلوا ثم العم لأب وأم ثم.

وفيه أيضاً: (545/5، ط: دار الفكر)
اﻟﻜﺒﻴﺮﺓ ﺇﺫا ﻃﻠﺒﺖ اﻟﻨﻔﻘﺔ، ﻭﻫﻲ ﻟﻢ ﺗﺰﻑ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺖ اﻟﺰﻭﺝ ﻓﻠﻬﺎ ﺫﻟﻚ ﺇﺫا ﻟﻢ يطالبها اﻟﺰﻭﺝ ﺑﺎﻟﻨﻘﻠﺔ.

حیلہ ناجزہ: (ص: 72، ط: دار الاشاعت)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce