سوال:
السلام علیکم،
حضرت ! ایک سوال آپ کی خدمت میں عرض کرنا تھا کہ کسی کے جڑواں 2 بیٹے ہوں، تو عقیقہ میں چار بکریاں ذبح ہونگی یا دو؟
اور اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہو، تو کس حساب سے عقیقہ ہوگا؟
رہنمائی فرمادیں، جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ اگر مالی استطاعت ہو، تو عقیقہ میں سنت اور افضل یہ ہے کہ ایک لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا دو بکریاں اور ایک لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا بکری ذبح کی جائے۔
اگر لڑکے کی طرف سے دو بکرے ذبح کرنے کی گنجائش نہ ہو، تو ایک بکرا یا بکری ذبح کرنے سے بھی عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی، لہذا اگر جڑواں لڑکوں کی طرف سے دو بکرے یا بکریاں ذبح کر دی گئیں، تو بھی عقیقہ ادا ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داود: (رقم الحدیث: 2841)
”عن ابن عباس أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن الحسن والحسین کبشًا" کبشًا”
فیض الباری: (کتاب العقیقة، 337/4)
"ثم إن الترمذي أجاز بہا إلی یوم أحدے وعشرین، قلت بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن نفسہ بنفسہ".
سنن ابن ماجۃ: (228)
"عن أم کرز قالت: سمعت النبی صلی الله علیه وسلم یقول: عن الغلام شاتان مکافئتان وعن الجاریۃ شاۃ".
سنن ترمذی: (278/1)
مصنف ابن ابی شبیة: (322/12)
اعلاء السنن: (115/17)
سنن النسائی: (167/2)
مرقاۃ المفاتیح: (80/8)
"وأما الغلام فیحتمل أن یکون أقل الندب فی حقه عقیقة واحدۃ وکماله ثنتان، والحدیث یحتمل أنه لبیان الجواز فی الاکتفاء بالأقل".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی