عنوان: میراث کی غیر شرعی تقسیم(2717-No)

سوال: مفتی صاحب ! میرے والد صاحب کا 2002 میں انتقال ہوگیا تھا، ورثاء میں ہم دو بیٹے اور بیوہ ہیں،والد صاحب کے ترکہ میں ایک بلڈنگ تھی، جس میں دو کمروں کے تین فلیٹ تھے، اس کی قیمت لگوائی، نچلی منزل کا فلیٹ آٹھ لاکھ، جبکہ پہلی اور دوسری منزل کی قیمت گیارہ گیارہ لاکھ روپے تھی، کچھ عرصے بعد میںنے والدہ سے اپنی وراثت کے حق کا مطالبہ کیا، تو والدہ نے مجھے دوسری منزل کا فلیٹ پگڑی پر بیچ کر اس کی رقم تیرہ لاکھ پینتس ہزار اور اپنی طرف سے 3 لاکھروپے الگ سے دیئے۔
واضح رہے کہ والدہ نے اپنی طرف سے ۵۰ ہزار روپے میرے بھائی اشفاق کو بھی دیئے تھے، تاکہ وہ اوپر چھت پر کمرہ بناسکے، جوکہ اس نے چھت پر تعمیر کروالیا، والدہ نے مجھے اپنی طرف سے 3 لاکھ دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں میں 3 لاکھ اپنی طرف سے دےرہی ہوں، اب تم اس پوری بلڈنگ
سے دستبردار ہو اور اپنی طرف سے انہوں نے یہ تقسیم کی کہ نچلا گراونڈ فلور والا مکان والدہ نےاپنے پاس رکھا ،باقی تمام بلڈنگ بمع چھت اور اسکا کمرہ کا قبضہ اشفاق کو دیدیا، جس کی بنا پر اشفاق اب تک میرے فلیٹ کی پگڑی کا کرایہ لیتا چلا آرہا ہے اور وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ تم اب اس بلڈنگ میں والدہ کےفلیٹ کے حق کے علاوہ ہر قسم کے حق سے دستبردار ہوچکے ہو۔
واضح رہے کہ میں اس تقسیم پر قطعاً راضی نہیں تھا ،جس پر میں نے والدہ کے سامنے دو مرتبہ کہا بھی تھا اور اشفاق کے سامنے اسکا ذکر کیا کہ والدہ یہ تقسیم غلط کر رہی ہیں تو اس نے مجھے کہا کہ فی الحال والدہ کی بات مان لو، پھر بعد میں جیسے شریعت کہے گی ،ہم ویسے تقسیم کرینگے ۔
مفتی صاحب اس تفصیل کے بعد آپ سے چند سوالات مطلوب ہیں:
1) والد صاحب کی میراث میں والدہ کا کتنا حصہ بنتا ہے ؟کیا یہ نچلا والا فلیٹ ان کا حصہ بنتا تھا، جو ساری زندگی ان کے زیر استعمال رہا ؟
2) والدہ کی مندرجہ بالا تقسیم کرنا شریعت کے موافق تھا یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو ازسرِنو اس کی تقسیم کس طرح کی جائیگی؟
3) کیا اشفاق کا یہ دعویٰ کرنا کہ تم اس بلڈنگ سے دستبردار ہوگئے ہواور سوائے والدہ کی میراث کے تمہارااس بلڈنگ میں کوئی حق نہیں ہے، کیا یہ دعوی ازروئے شریعت صحیح ہے یا نہیں ؟
4) اشفاق کا چھت پر اور اس کے اوپر بنائے گئے کمرے پر کتنا حق ہے؟
5) اس پوری بلڈنگ کو والدہ کے انتقال کے بعد ہم کس طرح اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم کریں ؟وہ
واضح فرمادیں ۔
6) والدہ نے اپنے حصہ کے فلیٹ میں سے ایک تہائی مدرسہ کو دینے کی وصیت کی تھی،اس وصیت کو کیسے پورا کریں ؟
اللہ جل شانہ آپ کو دونوں جہانوں میں اس کی جزا عطا فرمائے، آمین

جواب: 1) بیوہ کا شوہر کی میراث میں اولاد کے ہوتے ہوئے آٹھواں حصہ بنتا ہے، لھذا والدہ مکان کی پوری نچلی منزل کی مالکہ نہیں تھیں، بلکہ پورے مکان میں 1/8 کی مالکہ تھیں۔
2) والدہ کی تقسیم کردہ میراث شرعاً درست نہیں ہے، لھذا میراث ازسرِ نو تقسیم کی جائے گی۔
3) اشفاق کا دعویٰ غلط ہے، کیونکہ آپ اس تقسیم پر راضی نہیں تھے، جس کا آپ نے والدہ اور اشفاق کے سامنے تذکرہ بھی کیا تھا۔
4) اشفاق کو جو اس نے چھت پر کمرہ بنایا ہے، اس کے موجودہ مٹیریل کی قیمت دیکر باقی تمام مکان میں دونوں بھائی برابر کے شریک ہونگے۔
5) پورے مکان کی قیمت لگا کر اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، پھر ایک حصہ مکمل اشفاق کو دیدیا جائے گا اور ایک حصہ کے پیسوں میں سے بلال چونکہ تیرہ لاکھ پینتیس ہزار لے چکا ہے، لھذا تیرہ لاکھ پینتیس ہزار کو منفی کرکے باقی بلال کے حصے کے پیسے بلال کو دیئے جائیں گے۔
6) والدہ کی متروکہ جائیداد اور مال میں سےتجہیز وتکفین کا خرچ اور قرضہ نکالنے کے بعد ایک تہائی تک وصیت نافذ کی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ ۔۔۔۔الخ

الدر المنثور: (النساء، الایۃ: 14)
{ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا ٱلأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ } { وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ }
أخرج ابن جرير وابن أبي حاتم من طريق علي عن ابن عباس في قوله { تلك حدود الله } يعني طاعة الله، يعني المواريث التي سمى. وقوله { ويتعدَّ حدوده } يعني من لم يرض بقسم الله وتعدَّى ما قال.
وأخرج ابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم عن السدي { تلك حدود الله } بقول: شروط الله.
وأخرج ابن أبي حاتم عن سعيد بن جبير { تلك حدود الله } يعني سنة الله وأمره في قسمة الميراث { ومن يطع الله ورسوله } فيقسم الميراث كما أمره الله { ومن يعص الله ورسوله } قال: يخالف أمره في قسمة المواريث { يدخله ناراً خالداً فيها } يعني من يكفر بقسمة المواريث وهم المنافقون، كانوا لا يعدون أن للنساء والصبيان الصغار من الميراث نصيباً.

مشکوۃ المصابیح: (باب الوصایا، الفصل الثالث، قبیل کتاب النکاح، 244/1)
عن انسؓ قال قال رسولﷲﷺ من قطع میراث وارثہ قطعﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القیٰمۃ،

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1031 Dec 03, 2019
meras ki ghair shari / sharai taqseem, Illegal / non-sharia distribution of inheritance

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.