سوال:
جس نے کسی مسلمان کو نقصان سے بچانے کے لیے اسے فروخت کی ہوئی چیز واپس لے لی، اللہ اس کی لغزشوں کو ختم کرینگے، اس حدیث کی تصدیق کردیں اور لفظ لغزشوں کا مطلب بھی بتادیں۔
جواب: ایک سودا پورا ہونے کے بعد کسی بھی وجہ سے خریدار یا فروخت کرنے والا اس معاملہ کو ختم کرنا چاہے اور دوسرا فریق اس کی رعایت کرتے ہوئے اس پر رضامندی کا اظہار کرکے وہ چیز بعینہ لوٹا دے تو اسے "اقالہ" کہتے ہیں، چونکہ اس میں فریق اول دوسرے شخص کو ذہنی تکلیف و اذیت سے بچارہا ہے، اس کے نتیجہ میں شریعت مطہّرہ نے روزِ قیامت اس کے (صغیرہ) گناہوں کی معافی کی بشارت سنائی ہے۔
دریافت کردہ روایت اسی "اقالہ" سے متعلق ہے، جس کو امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی "سنن" میں ذکر کیا ہے، روایت کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس (دکاندار) نے بھی اپنے مسلمان گاہک سے (اس کی خریدی ہوئی چیز، اس کی مجبوری پر اس سے درگزر کرتے ہوئے) واپس لے لی (اور اسے اس کی پوری قیمت دے دی ) تو اللہ تعالٰی دنیا و آخرت میں اس کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف فرما دیں گے۔" (سنن أبي داوود، حديث نمبر: 3053)
"لغزش" سے مراد:
یہاں حدیث مبارک میں "لغزش " سے مراد صغیرہ گناہ اور کوتاہیاں ہیں، کیونکہ قرآن وحدیث کی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ گناہ بغیر ندامت و توبہ معاف نہیں ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
سنن أبي داؤد: کتاب الإجارة، باب في فضل الإقالة، رقم الحدیث: 3460، 274/3، ط: المكتبة العصرية، بيروت
عن أبي هريرة-رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أقال مسلما أقاله الله عثرته»
کذا أخرجه ابن ماجه: (کتاب التجارات، باب الإقالة، 741/2، ط: دار إحياء الكتب العربية
مرقاة المفاتيح: (کتاب البیوع، باب المنهي عنها من البیوع، رقم الحدیث: 2881، 1946/5، ط: دار الفكر، بيروت)
«أقال الله عثرته» أي: غفر زلته وخطيئته يوم القيامة۔
إنجاح الحاجة: (ضمن شروح سنن ابن ماجه، قوله من ورى في يمينه من التورية وهي كتمان الشيء وإظهار خلاف ذلك، 159، ط: قديمي كتب خانه كراتشي)
قوله: «أقاله الله عثرته» أي: تعبه ومشقته۔
رد المحتار على الدر المختار: (باب الإقالة، 119/5، ط: دار الفكر)
(قوله: رفع العقد) ولو في بعض المبيع لما في "الحاوي" لو باع منه حنطة مائة من بدينار، ودفعها إليه فافترقا، ثم قال للمشتري ادفع إليّ الثمن أو الحنطة، التي دفعتها إليك فدفعها أو بعضها، فهو فسخ في المردود. اه.
والله تعالى أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی