سوال:
السلام علیکم،
آپ مفتیانِ کرام سے چند مسائل کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔
پہلی یہ کہ ہمارے ہاں سرکاری اسکولوں میں زیرو فنڈ کے نام سے سرمایہ رکھا جاتا ہے، جو کہ بچوں سے مختلف وجوہات کی بناء جرمانے کے طور پہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر اس کو بچوں ہی پر مختلف مواقع میں لگایا جاتا ہے، مثلاً اچھی کارکردگی دکھانے والے بچوں کیلئے انعامات، امتحانات کیلئے اسٹیشنری، نادار بچوں کیلئے کپڑے سوئیٹرز وغیرہ کی خریداری وغیرہ۔۔۔ تو شرعی لحاظ سے کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
دوسرا یہ کہ اگر اسی زیرو فنڈ کے پیسوں میں سے جماعت کی نماز کیلئے چٹائیاں خریدی جائیں، تو اس پر نماز کا کیا حکم ہے؟
شکریہ
جواب: واضح رہے کہ مالی جرمانہ کسی سے لینا جائز نہیں ہے، لہذا طلبہ کی مختلف خلاف ورزیوں کی بنا پر تعلیمی اداروں کا ان سے جرمانہ جمع کرنا ، اور اس کو کسی بھی کام ( چاہے وہ کارِ خیر ہی کیوں نہ ہو)میں خرچ کرنا صحیح نہیں ہے ۔
جن طلبہ سے مالی جرمانہ لیا گیا ہو، وہ ان کو واپس کرنا یا ان پیسوں کو بالغ طلبہ سے بذاتِ خود اور نابالغ طلبہ کے سرپرستوں سے معاف کرانا ضروری ہے، اور جب تک طلبہ کو ان کے پیسے نہ دئیے جائیں، یا ان سے مذکورہ طریقے پر معاف نہ کرائے جائیں ، اس وقت تک ان پیسوں سے خریدی گئی چٹائی کو استعمال کرنا ناجائز ہے، اور اس چٹائی پر پڑھی جانے والی نمازیں کراہت کے ساتھ ادا ہونگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الحدود، باب التعزیر، 61/4، ط: سعید)
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اه. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان۔
البحر الرائق: (کتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، 44/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
أفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ . والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال۔
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الصلوٰۃ قبیل باب الاذان، 379/1، ط: سعید)
وكذا تكره في أماكن كفوق كعبة وفي طريق ومزبلة ومجزرة ........وأرض مغصوبة أو للغير لو مزروعة أو مكروبة وصحراء فلا سترة لمار.
(قوله: وأرض مغصوبة أو للغير) لا حاجة إلى قوله أو للغير إذ الغصب يستلزمه، اللهم إلا أن يراد الصلاة بغير الإذن وإن كان غير غاصب، أفاده أبو السعود ط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی