سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا اذان میں شہادتین کو آہستہ کہنے کے بعد دوبارہ زور سے کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اذان میں شہادتین (اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله) آہستہ کہنے کے بعد اس کو دوبارہ بلند آواز سے کہنے کو "ترجیع" کہتے ہیں، فقہ حنفی کے مطابق اذان میں ترجیع کرنا مسنون نہیں ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ عبداللہ بن زید ؓ فرماتےہیں:"رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان اور اقامت دونوں دہری ہوتی تھیں"، (یعنی اذان و اقامت کا ہر ہر جملہ صرف دو دو مرتبہ پڑھا جاتا تھا) ۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر:194)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الإِقَامَةَ مَثْنَى مَثْنَى، رقم الحدیث: 194، ط: دارالغرب الاسلامی)
عن عبد الله بن زيد، قال: " كان اذان رسول الله صلى الله عليه وسلم شفعا شفعا في الاذان والإقامة ". قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن زيد رواه وكيع، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: حدثنا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، ان عبد الله بن زيد راى الاذان في المنام، وقال شعبة: عن عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، ان عبد الله بن زيد راى الاذان في المنام، وهذا اصح من حديث ابن ابي ليلى، وعبد الرحمن بن ابي ليلى لم يسمع من عبد الله بن زيد، وقال بعض اهل العلم: الاذان مثنى مثنى، والإقامة مثنى مثنى. وبه يقول سفيان الثوري , وابن المبارك , واهل الكوفة. قال ابو عيسى: ابن ابي ليلى هو محمد بن عبد الرحمن بن ابي ليلى، كان قاضي الكوفة ولم يسمع من ابيه شيئا، إلا انه يروي عن رجل، عن ابيه.
شرح مختصر الطحاوی: (550/1)
واما الترجیع فلیس ھو من عندنا من صلب الاذان، وذلک لانہ لیس فی اذان عبداللہ ابن زید رضی اللہ عنہ الذا یرویہ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ عن اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی قصة الاذان ترجیع۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی