عنوان: رسول اللہ ﷺ کے معجزات(2793-No)

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ کیا حضور اکرم ﷺ نے کوئی معجزہ کر کے کفار کو دکھایا تھا؟ اگر دکھایا تھا تو وہ کونسا معجزہ تھا؟ اور کیا کبھی نبی کریم ﷺ نے کسی مرے ہوئے انسان یا جانور کو زندہ کرنے کا بھی معجزہ دکھایا ہے؟

جواب: رسول اللہ ﷺکے بہت سے معجزات ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے، جیسے کہ یہ بات ابن قیم رحمہ اللہ نے "إغاثة اللهفان"(ج:2، ص:347،ط:دارالمعارف، ریاض) میں صراحت کیساتھ بیان کی ہے، ان معجزات میں سے کچھ  رونما ہو کر ختم ہو چکے ہیں اور کچھ جب تک اللہ چاہے گا باقی رہیں گے، ان میں  سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے  بڑا معجزہ ہے، اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر سب سے بڑی دلیل بھی ہے، اور وہ قرآن کریم ہے، اس کی آیات ہمیشہ ہمیشہ باقی رہیں گی، ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ قرآن کریم اس اعتبار سے بھی معجزہ ہے کہ اس میں دیئے جانے والے احکامات محکم ہیں، پوری بشریت مل کر بھی ایسے قوانین نہیں بنا سکتی ہے۔
چند معجزات درج ذیل ہیں:
- اسرا ءاور معراج کا معجزہ، قرآن کریم  نے اسرا ءکا ذکر بالکل صراحت کیساتھ کیا ہے، جبکہ معراج کے بارے میں اشارہ ہی کیا ہے، لیکن بہت سی احادیث میں معراج کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔
2- چاند دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ، قرآن کریم  میں اس کا ذکر موجود ہے، اور احادیث مبارکہ میں متواتر  حد تک ان معجزے کا ذکر ملتا ہے، جیسے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ  نے ذکر کیا ہے اور علمائے کرام کا اس بارے میں اجماع  ہے۔
3- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑے ہوئے تھوڑے سے کھانے میں اتنا اضافہ ہو جانا کہ پورا لشکر ہی اس سے سیر ہو جائے، اور پھر بھی کھانا بچ جائے، یہ واقعہ صحیح بخاری و مسلم سمیت دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔
4- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی بہنا، اور تھوڑا سا پانی اتنا زیادہ ہو جائے کہ پورا لشکر اس سے پانی پی کر سیر ہو جائے اور وضو بھی بنا لے، اس بارے میں بھی احادیث مبارکہ بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔
5- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مستقبل کی پیشین گوئی  اور پھر وہ چیزیں اسی طرح رونما ہوئی ، آج بھی ہم کچھ باتیں اسی طرح ہوتی دیکھ رہے ہیں جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائیں ۔
6- جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر بنوایا اور کھجور کے تنے کو چھوڑ دیا تو وہ آپ کے فراق میں رونے لگا، اس بارے میں حدیث صحیح بخاری میں ہے۔
آپ ﷺ کےمتعلق گوہ کی گواہی دینے کا واقعہ اور اس کی تحقیق
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْوَلِيدِ السَّلَمِيُّ الْبَصْرِيُّ قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: نا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: نا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: ثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَدِيثَ الضَّبِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ فِي مَحْفَلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ قَدْ صَادَ ضَبًّا، وَجَعَلَهُ فِي كُمِّهِ، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ، فَرَأَى جَمَاعَةً، فَقَالَ: عَلَى مَنْ هَذِهِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالُوا: عَلَى هَذَا الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَشَقَّ النَّاسَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا اشْتَمَلَتِ النِّسَاءُ عَلَى ذِي لَهْجَةٍ أَكْذَبَ مِنْكَ، وَلَا أَبْغَضَ، وَلَوْلَا أَنْ يُسَمِّينِي قَوْمِي عَجُولًا لَعَجِلْتُ عَلَيْكَ، فَقَتَلْتُكَ، فَسَرَرْتُ بِقَتْلِكَ النَّاسَ جَمِيعًا.
فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَقْتُلْهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْحَلِيمَ كَادَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا؟) .
ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى لَا آمَنْتُ بِكَ، أَوْ يُؤْمِنَ بِكَ هَذَا الضَّبُّ؟ فَأَخْرَجَ ضَبًّا مِنْ كُمِّهِ، وَطَرَحَهُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنْ آمَنَ بِكَ هَذَا الضَّبُّ آمَنْتُ بِكَ.
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (يَا ضَبُّ) !!
فَتَكَلَّمَ الضَّبُّ بِكَلَامٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ، يَفْهَمُهُ الْقَوْمُ جَمِيعًا: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، يَا رَسُولَ رَبِّ الْعَالَمِينَ .
فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (مَنْ تَعْبُدْ؟) .
قَالَ: الَّذِي فِي السَّمَاءِ عَرْشُهُ، وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانُهُ، وَفِي الْبَحْرِ سَبِيلُهُ، وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتُهُ، وَفِي النَّارِ عَذَابُهُ.
قَالَ: (فَمَنْ أَنَا، يَا ضَبُّ؟) .
قَالَ: أَنْتَ رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَكَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ كَذَّبَكَ.
فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا .
..
ترجمہ:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ضبّ کی حدیث بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ بنوسلیم کا اعرابی حاضر ہوا، جس نے گوہ کا شکار کر کے اپنی آستین میں اس کو رکھا ہوا تھا، اس کو وہ اپنے سفر میں لے جا رہا تھا، اس نے لوگوں کی ایک جماعت دیکھی تو کہنے لگا: یہ جماعت کس شخص پر ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں نبی ہوں، تو وہ اعرابی لوگوں کو چیر کر آگے نکل گیا۔ پھر نبی ﷺکی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! عورتیں تجھ سے زیادہ جھوٹے لہجے والی نہیں ہیں، اور تم سے زیادہ بُرا مجھے کوئی نہیں لگتا (نعوذ باللہ)، اگر مجھے میری قوم عجول (عجلت والے) کے نام پر موسوم نہ کرتی تو میں تجھے جلدی سے قتل کر دیتا، اور تیرے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کر دیتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تجھے معلوم نہیں کہ حوصلے والا آدمی قریب ہے کہ نبی بن جائے۔“پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات اور عزیٰ کی قسم ہے کہ میں تجھ پر ایمان نہیں لایا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اعرابی! تجھے اس بات پر کس نے آمادہ کیا کہ تو نے یہ بات کہی، اور تو نے ناحق کلام کیا، اور تو نے میری مجلس کی عزت نہیں کی، اور تو اللہ کے رسول کو ہلکا سمجھتے ہوئے کہہ رہا ہے؟“ وہ کہنے لگا: قسم ہے لات اور عزیٰ کی، میں تجھ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ تجھ پر ایمان لائے، تو اس نے گوہ اپنی آستین سے نکال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی اور کہنے لگا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گوہ!“ تو گوہ نے عربی زبان میں کلام کیا جس کو تمام لوگ سمجھ رہے تھے، کہنے لگی: میں حاضر ہوں، اور پھر حاضر ہوں اے رب العالمین کے رسول! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تو کس چیز کی بندگی کرتی ہے؟“ گوہ کہنے لگی کہ میں اس ذات کی بندگی کرتی ہوں جس کا عرش آسمان میں ہے، اور زمین میں اس کی بادشاہی ہے، اور سمندر میں اس کا راستہ ہے، اور جنّت میں اس کی رحمت ہے، اور آگ میں اس کا عذاب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گوہ! بتا میں کون ہوں؟“ تو وہ کہنے لگی: آپ جہانوں کے رب کے رسول ہیں، اور خاتم النّبیین ہیں، جو آپ کی تصدیق کرے گا وہ کامیاب ہوا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ناکام ہوا۔ اعرابی کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ کی قسم! جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو میرے لیے روئے زمین پر آپ سے بُرا شخص کوئی نہیں تھا، اللہ کی قسم! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی زیادہ پیارے ہیں، آپ پر میرے بال، میرا جسم، میرے جان کا اندرون اور میرا بھید اور میری ظاہری باتیں سب آپ پر ایمان لے آئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب تعریف اس اللہ کے لیے جس نے تجھے اس دین کی ہدایت دی، جو بلند ہوتا ہے اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ جس کو اللہ تعالیٰ بغیر نماز کے قبول نہیں کرتا، اور نماز کو بغیر قرآن کے قبول نہیں کرتا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص سکھا دی۔ تو وہ کہنے لگا: ایسا کلام میں نے کبھی سادہ نثر میں سنا اور نہ نظم میں جو اس سے اچھا ہو۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کلام رب العالمین کا ہے، یہ شعر نہیں ہے۔ اور جب تو نے «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحََدٌ﴾»کو ایک دفعہ پڑھا تو گویا کہ تو نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے سورۃ اخلاص دو دفعہ پڑھ لیا تو گویا کہ دو تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحََدٌ﴾» تین دفعہ پڑھ لی تو گویا کہ تو نے تمام قرآن مجید پڑھ لیا۔“اعرابی کہنے لگا: ہمارا معبود بہت اچھا ہے، وہ تھوڑی چیز بھی قبول کرتا ہے اور زیادہ چیز عنایت فرماتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اعرابی کو کچھ دے دو۔“ تو انہوں نے اتنا دیا کہ طاقت سے زیادہ لاد دیا، تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اُٹھے، کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک اونٹنی دینا چاہتا ہوں، جو بختی اونٹ سے ذرا کم اور اعرابی سے اوپر ہوگی اور دس ماہ والی ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے تو وہ بیان کیا جو تم دو گے اب میں بیان کرتا ہوں جو کچھ اللہ تعالیٰ تجھ کو دیں گے۔“ انہوں نے کہا: فرمائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کشادہ موتی کی اونٹنی جس کے پاؤں سبز زبرجد کے ہوں گے، اس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی، اس پر ہودج ہو گا، اسکے اوپر سندس اور استبرق ہو گا جو تجھے اٹھا کر پل صراط سے اس طرح پار کر دے گی جس طرح اچک کر لے جانے والی بجلی ہوتی ہے۔“ تو وہ اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا گیا تو اس کو ایک ہزار اعرابی ملے جو ایک ہزار چوپایوں پر سوار تھے، ان کے پاس ایک ہزار نیزے اور ایک ہزار تلواریں تھیں۔ اس نے انہیں پوچھا: تم کہاں جانے کا ارادہ کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم اس جھوٹ کہنے والے سے جنگ کریں گے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، تو اس اعرابی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تو بھی بے دین ہوگیا ہے، تو وہ کہنے لگا: میں بے دین نہیں ہوا، پھر اس نے انہیں اپنا تمام واقعہ سنایا تو سب نے کہا: اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ایک چادر میں ملے، تو وہ اپنی سواریوں سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومنے لگے اور کہنے لگے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ» اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنا حکم سنائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔“ راوی نے کہا: عرب میں اس بنوسلیم قبیلہ کے علاوہ کوئی قبیلہ نہیں جس کے اکٹھے ایک ہزار آدمیوں نے ایمان قبول کیا ہو۔
واقعہ کی تحقیق
مذکورہ بالا واقعہ حدیث کی درج ذیل کتب میں بیان کیا گیا ہے۔طبرانی نے اپنے المعجم الصغیر (ج :2،ص: 62، ط: دارالکتب العلمیہ) اور المعجم الاوسط( ج : 6، ص: 127، ط:مکتبہ شعییہ) پر اور امام بیھقی نے دلائل النبوة:( ج: 6 ،ص36، ط:دارالکتب العلمیہ) اور ابونعیم نے دلائل النبوة (ج: ،2ص:377 ، ط:دارالنفائس ) میں ذکر کیا ہے۔
واقعہ کی سند
اس واقعے کو محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري نے نقل کیا ہےاور پھر ان سے طبرانی اور ابن عدی نے نقل کیا ہے۔
اس واقعے سے متعلق محدثین کا کلام
امام ذهبي نے "ميزان الاعتدال" (3/ 651،ط:دارالمعرفہ )
میں لکھا ہے کہ
" محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري
کے تذکرہ میں لکھا ہے۔
محمد بن علي بن الوليد السلمي البصري عن العدني محمد بن أبي عمر، وعنه الطبراني، وابن عدي.
روى أبو بكر البيهقي حديث الضب من طريقه بإسناد نظيف، ثم قال البيهقي: الحمل فيه على السلمي هذا.
قلت: صدق والله البيهقي، فإنه خبر باطل
" .
ترجمہ: محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري نے عدنی محمد بن عمر سے نقل کیا ہے اور پھر محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے طبرانی اور ابن عدی نے نقل کیا ہے۔
اور امام بیھقی نے اس واقعے کو سند نظیف کے ساتھ نقل کیا ہے اور فرمایا کہ اس روایت کی صحت کا مدار محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري پر ہے۔
امام ذھبی فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کی قسم بیھقی نے سچ کہا ہے، یہ روایت باطل ہے۔
حافظ ابن حجر "لسان الميزان" (5/ 292،ط:دارالکتب العلمیہ ) میں
محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے متعلق لکھتے ہیں کہ " وروى عنه الإسماعيلي في معجمه وقال: بصري منكر الحديث ".
ترجمہ:
محمد بن علي بن الوليد سلمي بصري سے اسماعیلی نے بھی اپنی معجم میں روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ بصری منکر الحدیث ہے۔
*"كنز العمال" (12/ 358، ط:دارالمؤسسة)میں علامہ علی متقی نے لکھا ہے کہ
ابن دحية نے الخصائص میں لکھا ہے کہ "هذا خبر موضوع".
ترجمہ:
یہ خبر من گھڑت ہے۔
ابن عساكر نے "تاريخ دمشق میں لکھاہے کہ " (4/381،ط:دارالفکر ) من ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻏﺮﻳﺐ ﻭﻓﻴﻪ ﻣﻦ ﻳﺠﻬﻞ ﺣﺎﻟﻪ ﻭﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻏﻴﺮ ﻣﺘﺼﻞ
ترجمہ:
یہ حدیث غریب ہے اور اس میں ایسے روای ہیں جو مجھول ہیں اور اس کی سند غیر متصل ہے۔ اور پھر ایک سند ضعیف سے تفصیلی واقعہ نقل کیا ہے۔
ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻱ ﺃﺗﻢ ﻣﻦ ﻫﺬا ﺑﺈﺳﻨﺎﺩ ﺿﻌﻴﻒ ﺃﻳﻀﺎ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻔﺮاﻭﻱ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ اﻟﺪاﻣﻐﺎﻧﻲ ﻣﻦ ﺳﺎﻛﻨﻲ ﻗﺮﻳﺔ ﻧﺎﻣﻴﻦ ﻣﻦ ﻧﺎﺣﻴﺔ ﺑﻴﻬﻖ ﻗﺮاءﺓ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻦ ﺃﺻﻞ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻧﺎ ﺃﺑﻮﺃﺣﻤﺪ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﻓﻲ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﺳﻨﺔ اﺛﻨﻴﻦ ﻭﺳﺘﻴﻦ ﻭﺛﻼﺛﻤﺎﺋﺔ ﺑﺠﺮﺟﺎﻥ ﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ اﻟﺴﻠﻤﻲ ﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻷﻋﻠﻰ ﻧﺎ ﻣﻌﺘﻤﺮ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻧﺎ ﻛﻬﻤﺲ ﻋﻦ ﺩاﻭﺩ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﻨﺪ ﻋﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﺇﺫا ﺟﺎء ﺃﻋﺮاﺑﻲ ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﺳﻠﻴﻢ ﻭﻗﺪ ﺻﺎﺩ ﺿﺒﺎ ﻭﺟﻌﻠﻪ ﻓﻲ ﻛﻤﻪ ﻟﻴﺬﻫﺐ ﺑﻪ ﺇﻟﻰ ﺭﺣﻠﻪ ﻓﻴﺸﻮﻳﻪ ﻭﻳﺄﻛﻠﻪ ﻓﻠﻤﺎ ﺭﺃﻯ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻗﺎﻝ ﻣﺎ ﻫﺬﻩ ﻗﺎﻝ ﻫﺬا اﻟﺬﻱ ﻳﺬﻛﺮ ﺃﻧﻪ ﻧﺒﻲ ﻗﺎﻝ ﻓﺠﺎء ﻳﺸﻖ اﻟﻨﺎﺱ ﻭﻗﺎﻝ ﻭاﻟﻻﺕ ﻭاﻟﻌﺰﻯ ﻣﺎ اﺷﺘﻤﻠﺖ اﻟﻨﺴﺎء ﻋﻠﻰ ﺫﻱ ﻟﻬﺠﺔ ﺃﺑﻐﺾ ﺇﻟﻲ ﻣﻨﻚ ﻭﻻ ﺃﻣﻘﺖ ﻣﻨﻚ ﻭﻟﻮﻻ ﺃﻥ ﻳﺴﻤﻴﻨﻲ ﻗﻮﻣﻲ ﻋﺠﻮﻻ ﻟﻌﺠﻠﺖ ﻋﻠﻴﻚ ﻓﻘﺘﻠﺘﻚ ﻓﺴﺮﺭﺕ ﺑﻘﺘﻠﻚ اﻻﺳﻮﺩ ﻭاﻷﺣﻤﺮ ﻭاﻷﺑﻴﺾ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﻓﻘﺎﻝ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺩﻋﻨﻲ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻓﺄﻗﻮﻡ ﻓﺄﻗﺘﻠﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﻳﺎ ﻋﻤﺮ ﺃﻣﺎ ﻋﻠﻤﺖ ﺃﻥ اﻟﺤﻠﻴﻢ ﻛﺎﺩ ﻳﻜﻮﻥ ﻧﺒﻴﺎ ﺛﻢ ﺃﻗﺒﻞ ﻋﻠﻰ اﻷﻋﺮاﺑﻲ ﻭﻗﺎﻝ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺣﻤﻠﻚ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻗﻠﺖ ﻣﺎ ﻗﻠﺖ ﻭﻗﻠﺖ ﻏﻴﺮ اﻟﺤﻖ ﻭﻟﻢ ﺗﻜﺮﻣﻨﻲ ﻓﻲ ﻣﺠﻠﺴﻲ ﻓﻘﺎﻝ ﻭﺗﻜﻠﻤﻨﻲ ﺃﻳﻀﺎ اﺳﺘﺨﻔﺎﻓﺎ ﺑﺮﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻭاﻟﻻﺕ ﻭاﻟﻌﺰﻯ ﻻ ﺃﻣﻨﺖ ﺑﻚ ﺃﻭ ﻳﺆﻣﻦ ﺑﻚ ﻫﺬا اﻟﻀﺐ ﻓﺄﺧﺮﺝ اﻟﻀﺐ ﻣﻦ ﻛﻤﻪ ﻓﻄﺮﺣﻪ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻱ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﻳﺎ ﺿﺐ ﻓﺄﺟﺎﺑﻪ اﻟﻀﺐ ﺑﻠﺴﺎﻥ ﻋﺮﺑﻲ ﻣﺒﻴﻦ۔۔۔۔۔
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ
ﻗﺎﻝ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﻓﻲ اﻟﻤﻌﺠﺰاﺕ ﺑﺎﻹﺟﺎزﺓ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ الحافظ فقال کتب الی ابو عبداللہ بن عدی یذکر ان محمد بن علی بن الولید السلمی حدثھم فذکرہ ﻭﺯاﺩ ﻓﻲ ﺁﺧﺮﻩ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ ﻗﺎﻝ ﻟﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻷﻋﻠﻰ ﻳﺤﺪﺙ ﺑﻬﺬا ﻣﻘﻄﻮﻋﺎ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻄﻮﻟﻪ ﻣﻦ ﺃﺻﻞ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻣﻊ ﺭﻋﻴﻒ اﻟﻮﺭاﻕ
ﻗﺎﻝ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻭﺭﻭﻯ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﻭﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭﻣﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎ ﻫﻮ ﺃﻣﺜﻞ اﻷﺳﺎﻧﻴﺪ ﻓﻴﻪ ﻭﻫﻮ ﺃﻳﻀﺎ ﺿﻌﻴﻒ ﻭاﻟﺤﻤﻞ ﻓﻴﻪ ﻋﻠﻰ اﻟﺴﻠﻤﻲ۔
ترجمہ:
ہمارے شیخ حاﻓﻆﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ نے ﻤﻌﺠﺰاﺕ میں حافظ ﺃﺑو ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ سے اﺟﺎزﺓً روایت کیا ہے اور کہا کہ ابوعبداللہ بن عدی نے مجھے لکھا کہ محمد بن علی بن الولید سلمی اس واقعے کو ذکر کرتے تھے ۔۔۔اور امام بیھقی نے حضرت عائشہ اور ابو ھریرہ کی سند سے نقل کیا، اس کی سند بہتر ہے، لیکن ضعیف ہے، کیونکہ اس واقعہ کا دارمدار محمد بن علی بن الولید سلمی پر ہے۔ علامہ ھیثمی نے مجمع الزوائد(ج:8، ص:294،ط: مکتبہ القدسی ) میں لکھاہے کہ
ﺭَﻭَاﻩُ اﻟﻄَّﺒَﺮَاﻧِﻲُّ ﻓِﻲ اﻟﺼَّﻐِﻴﺮِ ﻭَاﻷَْﻭْﺳَﻂِ ﻋَﻦْ ﺷَﻴْﺨِﻪِ ﻣُﺤَﻤَّﺪِ ﺑْﻦِ ﻋَﻠِﻲِّ ﺑْﻦِ اﻟْﻮَﻟِﻴﺪِ اﻟْﺒَﺼْﺮِﻱِّ ﻗَﺎﻝَ اﻟْﺒَﻴْﻬَﻘِﻲُّ: ﻭَاﻟْﺤَﻤْﻞُ ﻓِﻲ ﻫَﺬَا اﻟْﺤَﺪِﻳﺚِ ﻋَﻠَﻴْﻪِ. ﻗُﻠْﺖُ:، ﻭَﺑَﻘِﻴَّﺔُ ﺭِﺟَﺎﻟِﻪِ ﺭِﺟَﺎﻝُ اﻟﺼَّﺤِﻴﺢِ.
ترجمہ:
اس روایت کو طبرانی معجم صغیر اورمعجم اوسط میں اپنے شیخ محمد بن علی بن الولید بصری سے نقل کیا ہےاور امام بیھقی نے فرمایا کہ اس حدیث کا دارمدار محمد بن علی بن الولید بصری پر ہے۔
امام ھیثمی فرماتے ییں کہ میں کہتاہوں کہ اس کے باقی رجال صحیح کے رجال ہیں۔
*ملاء علی قاری نے موضوعات کبری (ج :1، ص: 238،ط:موسسة الرسالة)میں لکھا ہےکہ*
ﺣَﺪِﻳﺚُاﻟﻀَّﺐُّ ﻭَﺷَﻬَﺎﺩَﺗُﻪُ ﻟَﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ اﻟﺼَّﻼَﺓ ﻭَاﻟﺴَّﻼَﻡ ﻗﻴﻞ ﺇِﻧَّﻪ ﻣَﻮْﺿُﻮﻉٌ ﻭَﻗَﺎﻝَ اﻟْﻤِﺰِّﻱُّ ﻻَ ﻳَﺼِﺢُّ ﺇِﺳْﻨَﺎﺩًا ﻭَﻻَ ﻣﺘْﻨﺎ ﻟَﻜِﻦ ﺭَﻭَاﻩُ اﻟْﺒَﻴْﻬَﻘِﻲُّ ﺑِﺴَﻨَﺪٍ ﺿَﻌِﻴﻒٍ ﻭَﺫَﻛَﺮَﻩُ اﻟْﻘَﺎﺿِﻲ ﻋِﻴَﺎﺽٌ ﻓِﻲ اﻟﺸِّﻔَﺎءِ ﻓَﻐَﺎﻳَﺘُﻪُ اﻟﻀَّﻌْﻒُ ﻻَ اﻟْﻮَﺿْﻊُ
ترجمہ:
حدیث ضب اور اس کی رسول اللہﷺ کےلیے گواہی کے متعلق کہاگیاہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے اور امام مزی نے کہا کہ نہ اس کی سند صحیح ہے اور نہ ہی متن، لیکن اس کو امام بیھقی نے سندضعیف کے ساتھ نقل کیا ہےاور قاضی عیاض نے بھی شفاء میں ذکر ہے، زیادہ سے زیادہ اس کو ضعیف کہہ سکتے ہیں، موضوع یعنی من گھڑت نہیں کہہ سکتے ہیں۔
خلاصہ کلام:
مذکورہ روایت کی سند پر محدثین نے جرح کی ہے، لہذا زیادہ سے زیادہ اس روایت کو ضعیف کہہ سکتے ہیں، موضوع یعنی من گھڑت نہیں کہہ سکتےہیں، اس لیے مذکورہ روایت ضعف کے طرف اشارہ کیے بغیر بیان نہ کی جائے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 12046 Dec 06, 2019
Rasoollullah salalaho alihe wasallam ke mojzat / muajzat , Miracles of the Prophet

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.