سوال:
محترم مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ کیا حضور اکرم ﷺنے کوئی معجزہ کفار کے سامنے پیش کیا تھا؟ اس معجزہ سے متعلق مختصر ذکر کردیں۔
جواب: واضح رہے کہ خلافِ عادت امر کا ظہور کسی نبی کے ہاتھ پر ہو تو وہ "معجزہ کہلاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد اس بات کی تصدیق ہوتا ہے کہ یہ نبی اپنے دعوی نبوت میں بالکل سچا ہے، اور جس ہدایت کی تعلیم امت کو دے رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ یہ معجزہ در حقیقت اس قوم کے حالات و عادات کی رعایت کے ساتھ ایک چیلنج ہوتا ہے، جس کو پورا کرنے سے قوم عاجز ہوتی ہے، جس سے اس شخص کے دعوئ نبوت کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ( المُعْلم بفوائد مسلم،کتاب الجهاد، 28/3، الناشر: الدار التونسية للنشر)
اس کے بعد یہ سمجھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کو متعدد معجزات سے نوازا گیا، جن کی تعداد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ایک ہزار سے متجاوز ذکر کی ہے، جن میں بعض معجزات رونما ہوکر ختم ہوچکے اور کچھ معجزات قیامت تک کے لیے باقی رکھے گئے ہیں۔ جس میں سرفہرست قرآن مجید کا معجزہ ہے، جس کو کفار قوم کو قیامت تک کے لئے کھلا چیلنج دیا گیا ہے، چنانچہ سب سے پہلے قرآن مجید کا مثل پیش کرنے، پھر دس سورتیں یہاں تک کہ ایک سورت پیش کرنے کا واضح چیلنج دیا گیا ہے، مگر آج تک اس کا جواب دینےسے عرب کفار تک عاجز ہیں۔
نبی ﷺ اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کے مابین فرق:
1) نبیﷺ کا مرتبہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہے، سو اسی بناء پر آپ کو سب سے افضل معجزات سے نوازا گیا، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رب تعالی شانہ کی نشانیاں اسی دنیا میں دکھائی گئی، مگر حضور ﷺ کو آسمان و زمین کی سیر کرانے کے ساتھ مختلف نشانیوں پر مطلع ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
2) معجزات کی تعداد کے لحاظ سے بھی نبیﷺ کو دیگر انبیاء کرام علیہم السلام پر فوقیت سے نوازا گیا، جن کا مفصل تذکرہ "دلائل النبوة" اور "الخصائص الکبری" میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
3) ہر نبی کو اس وقت کے حالات ، لوگوں کے رجحان اور ان کی مہارت کے اعتبار سے معجزہ دیاجاتا ہے، تاکہ اس قوم کے افراد اس معجزے کو صحیح طرح سے سمجھ سکیں، اور اس کی حقانیت کا اعتراف کرکے اس مبعوث نبی پر ایمان لائیں۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں جادوگری کا چرچا تھا، سو انہیں عصا (لاٹھی ) اور ید بیضاء (روشن ہاتھ) سے نوازا گیا، جس کو دیکھ کر سب جادوگر حیران رہ گئے۔ اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں علاج معالجے کو بڑی اہمیت حاصل رہی، چنانچہ اسی اعتبار سے وقت کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کو یہ معجزہ دیا گیا کہ آپ مادر زاد اندھوں کو (اللہ کے حکم سے) شفا دیتے اور کوڑھ کے مرض سے دو چار شخص کو تندرست فرما دیتے تھے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت کے حکم سے مردوں کو بھی زندہ کرنے پر قدرت دی گئی۔
نبیﷺ کے دور میں اہل عرب خطابت اور شاعری میں مہارت رکھتے تھے، فصاحت وبلاغت ان کی رگوں میں دوڑتی تھی، ایسے ماحول میں نبیﷺ پر قرآن مجید اتارا گیا، جس پر مشرکین مکہ نے اعتراض کیا کہ یہ تو کسی انسان سے سیکھ کر کلام کہتے ہیں تو اس پر حق تعالی شانہ نے کھلا چیلنج دیا کہ "اگر تمہیں اس کتاب میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ"۔ جس پر عرب کے بڑے بڑے شعراء و ادباء اس کے مقابلے میں چند جملے بھی پیش نہ کرسکے، حتی کہ عرب کے فصحاء بھی اس کو کلام الہی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ (الخصائص الکبری، 113/1)
کفار کے سامنے پیش کردہ معجزہ:
نبی کریم ﷺ سے بھی آپ کی قوم مختلف نشانیوں اور معجزات کا مطالبہ کرتی رہتی تھی، چنانچہ اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کو سینکڑوں معجزات عطا فرمائے، جن میں سے بعض ایسے ہیں جو مشرکین کی فرمائش پر دیئے گئے اور ایسے معجزات بھی ہیں جو اللہ تعالی نے کسی فرمائش کے بغیر اپنی حکمت سے عطا فرمائے، ذیل میں شق ّقمر سے متعلق واقعہ کو مختصرا ذکر کیا جاتا ہے، جو مشرکین کی فرمائش پر معجزہ دیا گیا تھا:
روایت میں آتا ہے کہ ایک رات مطلع صاف تھا، اور چاند مکمل تھا، نبیﷺ چاند کی روشنی میں کھلے آسمان تلے تشریف فرما تھے۔ ایسے موقع پر مکہ کے چند سربراہان آئے اور اپنے ایمان قبول کرنے کے لئے شرط ٹھہرائی کہ ان کے سامنے چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھا دیئے جائیں، رسول اللہ ﷺ کے دل میں اللہ تعالی نے بات ڈالی کہ آپ اشارہ کریں، سو آپ ﷺنے انگشتِ شہادت سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اس وقت کافر سردار ایک دوسروں کو دیکھنے لگے اور آنکھیں ملنے لگے، مگر چونکہ ایمان ان کے مقدر میں نہ تھا تو یقین آنے کے باوجود کہنے لگے کہ تمہارا جادو تو آسمان پربھی چلتا ہے۔ (صحیح البخاري، باب انشقاق القمر، 1404/3، الناشر: دار ابن كثير)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاري: (باب انشقاق القمر، رقم الحدیث: 3868، 49/5، ط: دار طوق النجاة)
عن أنس بن مالك رضي الله عنه: «أن أهل مكة سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يريهم آية، فأراهم القمر شقتين، حتى رأوا حراء بينهما.»
دلائل النبوة لأحمد بن الحسين أبو بكر البيهقي: (التوحید معجزة الإسلام، 87/1، ط: دار الكتب العلمية، دار الريان للتراث)
«ثم إن لنبیِّنا -صلى الله عليه وسلم- وراء القرآن من الآيات الباهرة، والمعجزات الظاهرة ما لا يخفى، وأكثر من أن يحصى»
المُعْلم بفوائد مسلم،لأبي عبد الله محمد بن علي التَّمِيمي المالكي: (کتاب الجهاد، 28/3، المحقق: فضيلة الشيخ محمد الشاذلي النيفر، ط: الدار التونسية للنشر)
"وإنما الدليل القاطع على النّبوءة: المعجزات الخارقة للعادات المعدوم فيها المعارضات".
المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم لأبی العباس أحمد بن عمر القرطبي: (باب عصمة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخطأ، 167/6، حققه وعلق عليه وقدم له: محيي الدين ديب ميستو - أحمد محمد السيد - يوسف علي بديوي - محمود إبراهيم بزال، ط: دار ابن كثير، دمشق - بيروت)
ومن باب: "عصمة رسول الله ﷺ عن الخطأ فيما يبلغه عن الله تعالى": معنى هذه الترجمة معلوم من حال النبي ﷺ قطعًا بدليل المعجزة، وذلك أن النبي ﷺ لما قال للناس: أنا رسول الله إليكم، أبلغكم ما أرسلني به إليكم من الأحكام، والأخبار عن الدار الآخرة وغيرها، وأنا صادق في كل ما أخبركم به عنه، ويشهد لي على ذلك ما أيَّدني به من المعجزات.
ثم وقعت المعجزات مقرونة بتحدِّيه، علمنا على القطع والبتّات استحالة الخطأ والغلط عليه فيما بلغه عن الله، إما ؛ لأن المعجزة تنزلت منزلة قول الله تعالى لنا: صدق، أو لأنها تدل على أن الله تعالى أراد تصديقه فيما قاله عنه، دلالة على قرائن الأحوال، وعلى الوجهين فيحصل العلم الضروري بصدقه، بحيث لا يجوز عليه شيء من الخطأ في كل ما يبلغه عن الله تعالى بقوله"۔
المفاتيح في شرح المصابيح لمظهر الدين الزَّيْدَانيُّ: (باب فضائل سيد المرسلين صلوات الله عليه، 83/1، تحقيق ودراسة: لجنة مختصة من المحققين بإشراف: نور الدين طالب، ط: دار النوادر، وهو من إصدارات إدارة الثقافة الإسلامية - وزارة الأوقاف الكويتية)
"ما كان نبي من الأنبياء إلا أن الله تعالى أعطاه شيئا من المعجزات مثل ما آمن عليه البشر وصدقوه، أي: ما يناسبه في ذلك الزمان، وينقاد له أهله، كقلب العصا ثعبانا في زمن موسى، وإخراج اليد البيضاء؛ لأن الغلبة في زمنه السحر، فأتاهم بما هو فوق السحر، وفي زمن عيسى الطب، فأتاهم بما هو أعلى من الطب، كإحياء الموتى، وإبراء الأكمه، وفي زمن رسولنا البلاغة والفصاحة، فجاء القرآن، وأبطل الكلّ".
فتح الباري بشرح البخاري لأحمد بن علي بن حجر العسقلاني: (باب علامات النبوة في الإسلام، 583/6، رقم كتبه وأبوابه وأحاديثه: محمد فؤاد عبد الباقي، قام بإخراجه وتصحيح تجاربه: محب الدين الخطيب، ط: المكتبة السلفية – مصر)
"ومن أظهر معجزات القرآن: إبقاؤه مع استمرار الإعجاز، وأشهر ذلك: تحديه اليهود أن يتمنوا الموت فلم يقع ممن سلف منهم ولا خلف من تصدى لذلك ولا أقدم، مع شدة عداوتهم لهذا الدين وحرصهم على إفساده والصدّ عنه، فكان في ذلك أوضح معجزة.
وأما ما عدا القرآن: من نبع الماء من بين أصابعه، وتكثير الطعام، وانشقاق القمر ونطق الجماد، فمنه ما وقع التحدي به، ومنه ما وقع دالا على صدقه من غير سبق تحد، ومجموع ذلك يفيد القطع؛ بأنه ظهر على يده صلى الله عليه وسلم من خوارق العادات شيء كثير، كما يقطع بوجود جود حاتم وشجاعة علي-رضي الله عنه-، وإن كانت أفراد ذلك ظنية، وردت مورد الآحاد مع أن كثيرا من المعجزات النبوية قد اشتهر وانتشر، ورواه العدد الكثير والجم الغفير، وأفاد الكثير منه القطع عند أهل العلم بالآثار، والعناية بالسير والأخبار، وإن لم يصل عند غيرهم إلى هذه الرتبة؛ لعدم عنايتهم بذلك۔ بل لو ادعى مدع أن غالب هذه الوقائع مفيدة للقطع بطريق نظري لما كان مستبعدا؛ وهو أنه لا مرية أن رواة الأخبار في كل طبقة قد حدثوا بهذه الأخبار في الجملة، ولا يحفظ عن أحد من الصحابة، ولا من بعدهم مخالفة الراوي فيما حكاه من ذلك ولا الإنكار عليه فيما هنالك، فيكون الساكت منهم كالناطق؛ لأن مجموعهم محفوظ من الإغضاء على الباطل۔
وعلى تقدير أن يوجد من بعضهم إنكار أو طعن على بعض من روى شيئا من ذلك، فإنما هو من جهة توقف في صدق الراوي أو تهمته بكذب أو توقف في ضبطه، ونسبته إلى سوء الحفظ أو جواز الغلط، ولا يوجد من أحد منهم طعن في المروي كما وجد منهم في غير هذا الفن، من الأحكام والآداب وحروف القرآن ونحو ذلك".
شرح النووي علی صحیح مسلم لأبي زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي: (باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد ﷺ، 188/2، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)
"أن كل نبي أعطي من المعجزات ما كان مثله لمن كان قبله من الأنبياء، فآمن به البشر۔ وأما معجزتي العظيمة الظاهرة: فهي القرآن، الذي لم يعط أحد مثله۔ فلهذا قال: "أنا أكثرهم تابعا"۔ والثاني: معناه أن الذي أوتيته لا يتطرق إليه تخييل بسحر وشبهة، بخلاف معجزة غيري؛ فإنه قد يخيل الساحر بشيء مما يقارب صورتها، كما خيلت السحرة في صورة عصا موسى صلى الله عليه وسلم والخيال، قد يروج على بعض العوام۔ والفرق بين المعجزة والسحر والتخييل: يحتاج إلى فكر ونظر وقد يخطىء الناظر، فيعتقدهما سواء۔
والثالث: معناه أن معجزات الأنبياء انقرضت بانقراض أعصارهم، ولم يشاهدها إلا من حضرها بحضرتهم۔ ومعجزة نبينا ﷺ: القرآن، المستمر إلى يوم القيامة، مع خرق العادة في أسلوبه وبلاغته وإخباره بالمغيبات، وعجز الجن والإنس عن أن يأتوا بسورة من مثله مجتمعين أومتفرقين فى جميع الأعصار، مع اعتنائهم بمعارضته فلم يقدروا، وهم أفصح القرون مع غير ذلك من وجوه إعجازه المعروفة، والله أعلم"۔
الخصائص الکبری لعبد الرحمن بن أبي بكر جلال الدين السيوطي: (ذكر المعجزات والخصائص في خلقه الشريف صلى الله عليه وسلم، 188/1، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)
"قال العلماء: معناه أن معجزات الأنبياء انقضرت بانقراض إعصارهم فلم يشاهدها إلا من حضرها۔ ومعجزة القرآن مستمرة إلى يوم القيامة، وخرقه العادة في أسلوبه وبلاغته وأخباره بالمغيبات، فلا يمرّ عصر من الأعصار إلا ويظهر فيه شيء مما أخبر أنه سيكون، يدل على صحة دعواه۔ وقيل: المعنى أن المعجزات الماضية كانت حسية تشاهد بالأبصار، كناقة صالح، وعصا موسى، ومعجزة القرآن تشاهد بالبصيرة، فيكون من يتبعه لأجلها أكثر؛ لأن الذين يشاهد بعين الرأس ينقرض بانقراض مشاهده، والذي يشاهد بعين العقل باق يشاهده كل منهم جاء بعد الأول مستمرا"۔
والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچی