سوال:
مفتی صاحب! ایک عورت کے پاس نقد رقم نہیں تھی، مگر شادی کے وقت سے اس کے پاس سات تولہ سونا موجود تھا۔ اب شادی کو سات سال گزر چکے ہیں، اور ان سات سالوں میں اس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی۔ بعد میں اس نے دو تولہ سونا بیچ دیا، اور اِس وقت اس کے پاس پانچ تولہ سونا موجود ہے۔ اب وہ زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہے تو کیا اس پر پچھلے پورے سات سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے یا صرف اس سال سے زکوٰۃ ادا کرنا شروع کرے؟ اور جو دو تولہ سونا درمیان میں فروخت کر چکی ہے، کیا اس کی زکوٰۃ بھی ادا کرے گی یا صرف موجودہ پانچ تولہ سونے کی زکوۃ دینی ہوگی ؟ وضاحت: خاتون کی ملکیت میں چاندی، نقدی اور مال تجارت میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نقدی یا مالِ تجارت کا ہونا ہے، یا ان میں سے اگر بعض کو یا کُل کو دیگر اموالِ زکوۃ کے ساتھ جمع کیا جائے تو اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچ جاتی ہو تو سال پورا ہونے پر ایسے شخص پر زکوۃ واجب ہے۔ پوچھی گئی صورت میں خاتون کی ملکیت میں سونا سات تولہ سے زیادہ کسی بھی زمانے میں نہیں رہا اور نقدی بھی شروع کے چند سالوں میں اس کے پاس نہیں تھی، لہذا اس خاتون پر دو تولہ سونا بیچنے سے پہلے کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی، البتہ دو تولہ سونا بیچنے کے بعد چونکہ نقدی اس کی ملکیت میں آگئی جس سے یہ خاتون صاحب نصاب بن گئی، پس اگر سال پورا ہونے پر بھی نقدی اس کی ملکیت میں رہی تو جن سالوں کے اختتام پر سونا اور نقدی دونوں تھیں اور نصاب کے بقدر رقم بن رہی تھی تو ان سالوں کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدّر المختار:(کتاب الزکوٰۃ،267/2،ط: سعید)
(ﻭﺷﺮﻃﻪ) ﺃﻱ ﺷﺮﻁ اﻓﺘﺮاﺽ ﺃﺩاﺋﻬﺎ (ﺣﻮﻻﻥ اﻟﺤﻮﻝ) ﻭﻫﻮ ﻓﻲ ﻣﻠﻜﻪ (ﻭﺛﻤﻨﻴﺔ اﻟﻤﺎﻝ ﻛﺎﻟﺪﺭاﻫﻢ ﻭاﻟﺪﻧﺎﻧﻴﺮ) ﻟﺘﻌﻴﻨﻬﻤﺎ ﻟﻠﺘﺠﺎﺭﺓ ﺑﺄﺻﻞ اﻟﺨﻠﻘﺔ ﻓﺘﻠﺰﻡ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻛﻴﻔﻤﺎ ﺃﻣﺴﻜﻬﻤﺎ ﻭﻟﻮ ﻟﻠﻨﻔﻘﺔ (ﺃﻭ اﻟﺴﻮﻡ) ﺑﻘﻴﺪﻫﺎ اﻵﺗﻲ (ﺃﻭ ﻧﻴﺔ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ) ﻓﻲ اﻟﻌﺮﻭﺽ، ﺇﻣﺎ ﺻﺮﻳﺤﺎ ﻭﻻ ﺑﺪ ﻣﻦ ﻣﻘﺎﺭﻧﺘﻬﺎ ﻟﻌﻘﺪ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ﻛﻤﺎ ﺳﻴﺠﻲء، ﺃﻭ ﺩﻻﻟﺔ ﺑﺄﻥ ﻳﺸﺘﺮﻱ ﻋﻴﻨﺎ ﺑﻌﺮﺽ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ﺃﻭ ﻳﺆاﺟﺮ ﺩاﺭﻩ اﻟﺘﻲ ﻟﻠﺘﺠﺎﺭﺓ ﺑﻌﺮﺽ ﻓﺘﺼﻴﺮ ﻟﻠﺘﺠﺎﺭﺓ ﺑﻼ ﻧﻴﺔ ﺻﺮﻳﺤﺎ.
وفیه ایضاً:(باب زکوٰۃ المال،295/2،ط: سعید)
(ﻧﺼﺎﺏ اﻟﺬﻫﺐ ﻋﺸﺮﻭﻥ ﻣﺜﻘﺎﻻ ﻭاﻟﻔﻀﺔ ﻣﺎﺋﺘﺎ ﺩﺭﻫﻢ ﻛﻞ ﻋﺸﺮﺓ) ﺩﺭاﻫﻢ (ﻭﺯﻥ ﺳﺒﻌﺔ ﻣﺜﺎﻗﻴﻞ) ﻭﻗﻴﻞ ﻳﻔﺘﻰ ﻓﻲ ﻛﻞ ﺑﻠﺪ.
المبسوط للسّرخسي:(باب زکوٰۃ المال،254/2،ط: رشیدیة)
(ﻗﺎﻝ) ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺃﻗﻞ ﻣﻦ ﻣﺎﺋﺘﻲ ﺩﺭﻫﻢ ﺯﻛﺎﺓ ﻓﺈﺫا ﺑﻠﻐﺖ ﻣﺎﺋﺘﻲ ﺩﺭﻫﻢ ﻭﺣﺎﻝ ﻋﻠﻴﻬﺎ اﻟﺤﻮﻝ ﻓﻓﻲﻫﺎ ﺧﻤﺴﺔ.
فتاویٰ قاسمیہ:(باب وجوب الزکوٰۃ،291/10،ط: رشیدیة)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی