resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کیا شوہر اپنی بیوی کو دوسرے ملک لے جانے پر مجبور کرسکتا ہے؟ (29133-No)

سوال: السلام علیکم! اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، جبکہ شوہر ساتھ رہنا چاہتا ہے اور حقوق زوجیت بھی ادا کرنا نہیں چاہتی، شوہر ملک سے باہر ہے اور بیوی کہتی ہے کہ پاکستان میں ہی رہونگی اور چھ مہینے میں ایک بار آ جایا کروں گی، بس میرا نان نفقہ بھجواتے رہو تو کیا شوہر پر نان نفقہ دینا لازم ہے؟
اور شوہر کو اکیلے اس طرح رہنے سے بھٹکنے کا خطرہ ہے تو کیا اگر عورت مستقل ساتھ رہنے پر نہ مانے تو اس کو طلاق دے کے دوبارہ نکاح سے گناہ تو نہیں ہوگا؟ اور نان نفقہ جب کہ اولاد کوئی نہیں ہے کتنا ہوگا؟ شریعت کے حساب سے بتا دیں۔

جواب: شریعت کا عام اصول ہے کہ جب کوئی معاملہ دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان مشترک ہو تو اس میں ہر فریق پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، مثلاً ماں باپ کے حقوق اولاد پر اور اولاد کے ماں باپ پر، مہمان کے میزبان پر اور میزبان کے مہمان پر، رعایا کے بادشاہ پر اور بادشاہ کے رعایا پر وغیرہ وغیرہ، اس قاعدے کی روشنی میں آپ کے لیے بات سمجھنا آسان ہو جائے گی کہ شریعت میں میاں بیوی کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق واجب ہیں، عام طور پر لوگ شوہروں کے حقوق کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن شوہر کے ذمہ بیویوں کے حقوق کا نہ نام لیتے ہیں اور نہ ہی خیال رکھتے ہیں حالانکہ یہ زیادتی ہے کیونکہ معاملہ یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔
شریعت نے شوہر کے ذمے بھی بیوی کے متعدد حقوق عائد کئے ہیں، منجملہ ان حقوق کے ایک اہم حق یہ بھی ہے کہ عورت کو اپنے والدین اور محارم سے ملنے کی اجازت دی گئی ہے، شادی شدہ عورت کو والدین سے ملاقات کے لیے ہفتہ میں ایک مرتبہ اور دیگر محارم سے ملاقات کے لیے سال میں ایک دفعہ جانے کا حق حاصل ہے، اور شوہر کو اس سے منع کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے، چونکہ بیوی کو دوسرے ملک منتقل کرنے میں اس کے مذکورہ بالا حقوق تلف ہورہے ہیں، اس لیے عورت جب تک خود اپنے ان حقوق سے دستبردار نہ ہو، شوہر اس کو ملک سے باہر لے جانے پر مجبور نہیں کرسکتا، نیز شریعت میں عورت کے حق کی وجہ سے مرد کے لیے چار ماہ سے زائد سفر پر رہنا بدون بیوی کی اجازت کے جائز نہیں ہے۔
اسی طرح متاخرین فقہاءِ احناف نے فسادِ زمانہ کی بنا پر عورت کو شوہر کے ساتھ سفر پر مجبور نہ کرنے کا فتویٰ دیا ہے، اور ہمارے زمانے میں بعض وجوہ سے یہ فساد مزید بڑھ گیا ہے، اس لیے بیوی کو شرعاً یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ دوسرے ملک منتقل ہونے سے انکار کردے، اگر خاتون اپنے آبائی وطن میں رہنا چاہتی ہو تو شوہر اس معاملہ میں بیوی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا، اور ایسا کرنے سے خاتون ناشزہ (نافرمان) شمار نہیں ہوگی، بشرطیکہ وہ اپنے شہر میں شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں رہنے پر راضی ہو۔
ان تمہیدی باتوں کے بعد آپ کے پوچھے گئے سوالات کا جواب یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کو بیرون منتقل ہونے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں اور آپ پر بدستور اپنی مذکورہ بیوی کے کھانے پینے، لباس اور رہائش کے جملہ اخراجات ادا کرنا لازم ہیں، خرچہ دینے میں آپ میاں بیوی کی مالی حیثیت کا اعتبار ہوگا جو عرف کے مطابق ہوگا، اگر آپ دونوں صاحب حیثیت ہیں تو امیروں والا خرچہ دینا ہوگا اور اگر دونوں غریب ہیں تو غریبوں والا، لیکن اگر ایک غریب ہے اور دوسرا امیر ہو تو اس صورت میں درمیانے درجے کا خرچہ دینا ہوگا۔
اسی طرح بغیر شرعی عذر کے طلاق دینا بیوی کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے جو کہ ناجائز ہے، اس لیے مذکورہ انکار کو بنیاد بنا کر بیوی کو طلاق نہ دیں، البتہ اگر آپ ایک سے زائد بیویوں کے حقوقِ واجبہ میں مساوات کرسکتے ہیں تو اپنی حاجت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری شادی کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (212/4، ط: دار الكتاب الإسلامي)
وقد استفيد مما ذكرناه أن لها الخروج إلى زيارة الأبوين والمحارم فعلى الصحيح المفتى به تخرج للوالدين في كل ‌جمعة بإذنه وبغير إذنه ولزيارة المحارم في كل سنة ‌مرة بإذنه وبغير إذنه، وأما الخروج للأهل زائدا على ذلك فلها ذلك بإذنه.

الھندیه: (415/11، دارالفکر)
وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدًا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا -رحمهم الله تعالى-، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان، وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي، وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر؟ وقال مشايخ بلخ: في كل سنة، وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل، كذا في فتاوى قاضي خان، وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا، هكذا في الهداية۔

رد المحتار: (203/3، ط: دار الفکر)
ويؤيد ذلك أن عمر رضي الله تعالى عنه لما سمع في الليل امرأة تقول : فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد ، فسأل بنته حفصة : كم تصبر المرأة عن الرجل : فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها ، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها.

و فیه ایضاً: (574/3، ط: دار الفکر)
قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة۔

و فیه ایضاً: (146/3، ط: دارالفکر)
قال في البحر عن شرح المجمع: وأفتى بعضهم بأنه إذا أوفاها المعجل والمؤجل وكان مأمونا سافر بها وإلا لا لأن التأجيل إنما يثبت بحكم العرف، فلعلها إنما رضيت بالتأجيل لأجل إمساكها في بلدها، أما إذا أخرجها إلى دار الغربة فلا إلخ (قوله لكن في النهر إلخ) ومثله في البحر حيث ذكر أولا أنه إذا أوفاها المعجل فالفتوى على أنه يسافر بها كما في جامع الفصولين. وفي الخانية والولوالجية أنه ظاهر الرواية، ثم ذكر عن الفقيهين أبي القاسم الصفار وأبي الليث أنه ليس له السفر مطلقا بلا رضاها لفساد الزمان لأنها لا تأمن على نفسها في منزلها فكيف إذا خرجت وأنه صرح في المختار بأن عليه الفتوى. وفي المحيط أنه المختار۔ وفي الولوالجية أن جواب ظاهر الرواية كان في زمانهم، أما في زماننا فلا، وقال: فجعله من باب اختلاف الحكم باختلاف العصر والزمان كما قالوا في مسألة الاستئجار على الطاعات، ثم ذكر ما في المتن عن شرح المجمع لمصنفه، ثم قال: فقد اختلف الإفتاء والأحسن الإفتاء بقول الفقيهين من غير تفصيل واختاره كثير من مشايخنا كما في الكافي، وعليه عمل القضاء في زماننا كما في أنفع الوسائل. اه.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce