سوال:
لوگوں میں یہ حدیث بہت مشہور ہے کہ"اے ابن ادم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔۔۔الخ" کیا یہ حدیث درست ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت کو حدیث قدسی کہنا یا جناب رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اس روایت کا معنی اور مضمون درست ہے، اسی وجہ سے بعض مشائخ نے ان الفاظ کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، چنانچہ ان الفاظ کوانہی حضرات کی طرف منسوب کرکے ان کے حوالہ سے ذکر کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔ ذیل میں اس روایت کاترجمہ اور اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ:حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : اے داؤد ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو تو میں تمہاری چاہت کے لیے بھی کافی ہوجاؤں گا (یعنی تمہاری چاہت بھی پوری کردوں گا) اور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا، اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکا دوں گا (یعنی پوری کوشش کے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں ہوگی) اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔(نوادر الأصول رقم الحدیث: 737،ط:دار النوادر)(۱)
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
۱۔واضح حدیثِ قدسی اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسےجناب رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئےبیان فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔(۲)
۲۔مذکورہ روایت جتنی کتبِ حدیث میں یہ روایت درج ہے ان میں سے کسی میں بھی اس حدیث کی سند درج نہیں ہے اور نوادر الاصول کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہیں، اس لیے اس کو حدیث قدسی نہیں مانا جاسکتا ہے۔
۳۔اس روایت کی سند بھی انتہائی کمزور ہے، کیوں کہ حضرت حسن بصری(م 110ھ) رحمہ اللہ تک کی سند میں مذکور تینوں راوی متکلم فیہ ہیں۔(عمر ابن ابی عمر اور عبد الوھاب بن نافع انتہائی درجہ کے ضعیف راوی ہیں، جب کہ مبارک ابن فضالہ مدلس ہیں اور یہ روایت ان سے ’’عن‘‘ کے ساتھ منقول ہے) (۳)لہذا اس روایت کا خود حضرت حسن بصری(م 110ھ) سے ثابت ہونا بھی محل نظر ہے۔
۴۔ جن کتابوں میں یہ روایت نقل کی ہے، ان میں سب سے قدیم تالیف ’’نوادر الأصول‘‘ ہے اور بعد کی کتابوں میں یہ حدیث شاید اسی کتاب کے حوالہ سے آئی ہے’’ نوادر الأصول‘‘ حکیم ترمذی کی تالیف ہے، حکیم ترمذی(م320ھ) کا نام سن کر یا پڑھ کر بعض حضرات کو اس سے شبہ ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد مشہور محدث امام ترمذیؒ ہیں، جن کی کتاب’’سنن الترمذی‘‘ پڑھی پڑھائی جاتی ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں، مشہور محدث کا نام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے اور حکیم ترمذی کا نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن الحکیم الترمذی ہے اور یہ تیسری صدی کے مشہور عالم ہیں۔ان کا انتقال سن285ھ اور 290ھ کے درمیان ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱) نوادر الأصول:( 3 / 346،رقم الحدیث: 737،ط:دار النوادر)
حدثنا عمر بن أبي عمر، قال: حدثنا عبد الوهاب بن نافعٍ، عن مبارك بن فضالة، عن الحسن، قال: قال الله -تبارك وتعالى-: يا داود! تريد وأريد، ويكون ما أريد، فإن أردت ما أريد، كفيتك ما تريد، ويكون ما أريد، وإن أردت غير ما أريد، غيبتك فيما تريد، ويكون ما أريد.
(۲)مصطلح الحديث للشيخ محمد العثيمين:( 5،ط:مكتبة العلم)
الحديث القدسي: ما رواه النبي صلّى الله عليه وسلّم عن ربه - تعالى -، ويسمى أيضاً (الحديث الرباني) و (الحديث الإلهي)
(۳) ’’هذا إسناد مسلسل بالعلل:
1۔ عمر بن أبي عمر هو العبدي البلخي ترجم له الخطيب في’’ المتفق والمفترق‘‘(3/1612) فاحفظ، ذكره الحافظ في فتح الباري- في شرح الحديث الأول من كتاب التعبير (12/354) - فقال: "هو واهٍ".
2۔عبد الوهاب بن نافع العامري المطوعي.قال ابن حجر العسقلاني فی ’’اللسان‘‘(5/ 310):
وهاه الدارقطني، وَغيره.
3۔ مبارك بن فضالة العدوي ،قال الذهبي في ’’الكاشف‘‘(2/238): وقال النسائي ضعيف.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی