عنوان: ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے۔۔۔الخ حدیث قدسی کی تحقیق(2946-No)

سوال: لوگوں میں یہ حدیث بہت مشہور ہے کہ"اے ابن ادم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔۔۔الخ" کیا یہ حدیث درست ہے؟

جواب: آپ نے جس حدیث یا روایت کے بارے میں دریافت کیا ہے، کافی عرصے سے یہ روایت حدیث ِ قدسی کے نام سے خوب شہرت حاصل کر چکی ہے۔
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں موجود ہے۔
نوادر الاصول فی احادیث الرسول للحکیم الترمذی،المحررالوجیز فی تفسیر العزیز للابن عطیة، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃالمصابیح للعلامۃ علی القاری،احیاء العلوم للغزالی۔
’’نوادر الاصول‘‘ للحکیم الترمذی میں اس کے الفاظ یہ ہیں:
"حدثنا عمر بن أبي عمر قال: حدثنا عبد الوهاببن نافع عن مبارک بن فضالة عن الحسن قال: قال الله تعالى: (لداود عليه السلام) یا داؤد! تريد وأريد ويكون ما أريد، فإذا أردت ماأريد كفيتك ما تريد، ويكون ما أريد، وإذا أردت غير ما أريد عنيتك فيما تريد ويكون ما أريد".
(نوادر الأصول في أحاديث الرسول، الأصل الخامس و العشرون و المائة في أن سعادة ابن آدم الاستخارة و الرضیٰ بالقضاء  (2/ 107)ط:دار الجیل، بیروت)
ترجمہ:
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : اے داؤد ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو تو میں تمہاری چاہت  کے لیے بھی کافی ہوجاؤں گا (یعنی تمہاری چاہت بھی پوری کردوں گا) اور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا، اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکا دوں گا (یعنی پوری کوشش کے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں ہوگی) اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔
واضح رہے کہ جتنی کتبِ حدیث میں یہ روایت درج ہے ان میں سے کسی میں بھی اس حدیث کی سند درج نہیں ہے اور نوادر الاصول کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہیں، اس لیے اس کو حدیث قدسی نہیں مانا جاسکتا ہے، مزید یہ کہ اس روایت کی سند بھی انتہائی کمزور ہے؛  کیوں کہ حضرت حسن  بصری رحمہ اللہ تک کی سند میں مذکور تینوں راوی متکلم فیہ ہیں۔(عمر ابن ابی عمر اور عبد الوھاب بن نافع انتہائی درجہ کے ضعیف راوی ہیں، جب کہ مبارک ابن فضالہ مدلس ہیں اور یہ روایت ان سے  ’’عن‘‘ کے ساتھ منقول ہے) لہٰذا اس روایت کا خود حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت ہونا بھی محل نظر ہے۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ حدیث قدسی جن کتابوں میں ہے، ان میں سب سے قدیم تالیف ’’نوادر الأصول‘‘ ہے اور بعد کی کتابوں میں یہ حدیث شاید اسی کتاب کے حوالہ سے آئی ہے’’ نوادر الأصول‘‘ حکیم ترمذی کی تالیف ہے، حکیم ترمذی کا نام سن کر یا پڑھ کر بعض حضرات کو اس سے شبہ ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد مشہور محدث امام ترمذیؒ ہیں، جن کی کتاب’’سنن الترمذی‘‘ پڑھی پڑھائی جاتی ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں، مشہور محدث کا نام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے اور حکیم ترمذی کا نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن الحکیم الترمذی ہے اور یہ تیسری صدی کے مشہور محدث ہیں۔ان کا انتقال سن۲۸۵ھ اور ۲۹۰ھ کے درمیان ہوا ہے۔
خلاصہ کلام :
تمام کتب حدیث میں یہ روایت  بلا سند درج ہوئی ہے، لہذا اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اس لئے اس کو حدیث قدسی کہنا یا جناب رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے، البتہ اس روایت کا معنی اور مضمون درست ہے، اسی وجہ سے مذکورہ بالا کتب کے مصنفین مشائخ رحمھم اللہ نے ذکر کیا ہے، چنانچہ اس عبارت یا جملوں کو انہی حضرات کی طرف منسوب کرکے ان کے حوالہ سے ذکر کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 5190 Dec 18, 2019
aik teri chahat he or / aur ik meri chahat hey... hadees e qudsi ki tehqeeq, Confirmation of a hadith qudsi about One is your desire and one is my desire

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.