عنوان: "سیکولرزم" (Secularism) کیا ہے؟ اور "میں ایک سیکولر مسلمان ہوں" کہنے کا حکم (2982-No)

سوال: میں نے غلطی سے ایک بحث میں یہ کہہ دیا کہ "میں ایک سیکولر مسلمان ہوں"، میرا کہنے کا مقصد کچھ اور تھا، لیکن منہ سے یہ جملہ نکل گیا، معلوم یہ کرنا ہے کہ سیکولر(Secular) ہونا کسے کہتے ہیں اور کیا اس طرح کہنے سے میں ایمان سے خارج تو نہیں ہو گیا ہوں؟

جواب:
دورِ حاضر میں دین اسلام کی آفاقی تعلیمات سے بیزارى پیدا کرنے کے لیے جس فتنے سے اہل اسلام سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ "سیکولرزم" (Secularism) کا فتنہ ہے جو انسانى حقوق، رائے کى آزادى، عالمگیریت جیسى خوش نما تعبیرات سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق مایوسى اور شکوک پیدا کر رہا ہے، "سیکولرزم" (Secularism) کا ترجمہ عربی زبان میں "العلمانية" ہے اور اردو زبان میں اس کو "لادینیت" سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس نظریے کا خلاصہ یہ کہ مذہب (خواہ وہ کوئى بھى مذہب ہو) برائے تسکین ہے، برائے تعمیل وتنفیذ نہیں ہے، اس کى تفصیل یہ ہے کہ مذہب ہر انسان کا ذاتى مسئلہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی زندگی میں: عقائد، عبادات اور رسومات میں کسی مذہب کا پابند نہیں ہے، جس مذہب کو وہ اختیار کرنا چاہے اسے آزادی ہونی چاہیے، البتہ انسان کی اجتماعی زندگى میں مثلا: نظامِ معاشرت، نظام عفت وعصمت ، نظام عدل، نظامِ معیشت اور نظامِ سیاست ، میں کسی مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا، اس حوالے سے انسانی سماج اور سوسائٹی کے نمائندے بیٹھ کر اپنى اجتماعى دانش سے جو قانون بنا دیں گے اسی کے مطابق عمل ہوگا، لہذا اجتماعى زندگى میں جائز اور نا جائز، حلال و حرام کے متعلق کسی مذہب کی پابندی نہیں ہوگی، اگر معاشرہ زنابالرضا، شراب، جوا اور ہم جنس پرستی کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنا چاہے تو اس کو اختیار حاصل ہوگا، اجتماعی زندگی میں مذہب کی تعلیمات کی پابندی نہیں ہوگی۔
مذہب بیزاری کی "سیکولرزم" کى یہ تحریک عیسائی پادریوں اور چرچ کے ریاست پر جابرانہ تسلط کے رد عمل کے طور وجود میں آئی تھی، جس کے نتیجہ میں انہوں نے عیسائی مذہب کو صرف چرچ تک محدود کر دیا ہے، چنانچہ اہل یورپ ومغرب نے اسی تناظر میں مسلم ممالک میں بھى اسى سوچ کو پروان چڑھانا شروع کر دیا ہے، تاکہ جس طرح انہوں نے اپنے یہاں "عیسائیت" کى تعلیمات کو محض عبادت اور وہ بھى اتوار کے دن چرچ تک محدود کر دیا ہے، اسى طرح ان کی کوشش ہے کہ وہ مسلم ممالک میں لوگوں کو مذہب بیزار بنا کر دینِ اسلام کی تعلیمات کو بھى اجتماعى نظام زندگى سے بے دخل کر دیا جائے اور اسلامی تعلیمات کو محض عبادت اور رسومات کى حد تک مسجد ومدرسہ کى چہار دیوارى تک محدود کر دیا جائے۔
"سیکولرزم" (Secularism) کے نظریات کی شرعی حیثیت:
"سیکولرزم" کا مذکورہ بالا نظریہ اسلامى تعلیمات کی عالمگیریت، جامعیت اور ہمہ جہتى سے سراسر متصادم ہے۔
کیونکہ اسلام صرف چند عبادات اور مذہبى رسومات کا نام ہى نہیں، بلکہ وہ ایک مکمل نظام، مکمل دستور اور مکمل آئین برائے حیات ِانسانى ہے جو اپنے ہمہ جہت وسیع تر دائرۂ تعلیمات میں انسانى زندگى کے تمام شعبوں کو سمیٹے ہوئے ہے، اسلام فرد سے لے کر قوم تک، ایک خاندان سے لے کر ریاست و سلطنت تک اور پھر پوری دنیا کے تمام فکری، سماجی، تہذیبی، تمدنی، اخلاقى، قانونی، سیاسی، دیوانی، فوجداری، معاشی اور معاشرتی مسائل کے تمام پہلوؤں کو پورى پورى روشنى فراہم کرتا ہے، کسی بھى پہلو کو تشنہ باقی نہیں رکھتا ہے، کیونکہ اس دینِ متین کی نسبت جس رسولِ اکرم ﷺ کى طرف ہے، ان کى دعوت اور تعلیم آفاقى ہے، ان کی زندگی تمام شعبہائے زندگی کو جامع ہے، ان کا طرز عمل کھلى کتاب ہے، ان کا طریقۂ زندگى تمام انسانیت کے لیے "اسوہ حسنہ" (بہترین نمونہ) اور آئین ِحیات انسانى ہے، قرآن کریم نے اس زندگی کی طرف یوں دعوت دی ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب رسول تمہیں اس بات کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔(سورةالانفال: آیت نمبر: 24)
ذرا غور فرمائیے! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ کریم ﷺلوگوں کو زندگی کی طرف بلاتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی کے معاملات اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں سے بالکل غیر متعلق ہوں، زندگی کے مسائل اور معاملات کا حل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺپیش نہ فرمائیں؟!
اس لیے وہ شخص جس نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہو، اس مغالطے میں کبھی نہیں آئے گا کہ اسلام اور قرآن کریم کی تعلیمات محض چند عبادات اور رسومات ہیں اور بس، بلکہ اس کا یہ ایمان ہوگا کہ قرآن کریم خرید و فروخت،قرض کے لین دین،گروی رکھنے،شراکت داری، جان، مال عزت وآبرو کے متعلق تعزیری حدود وقوانین، وراثت کےمسائل، سیاسی معاملات، جنگ و امن کے مسائل اور بین الاقوامی تعلقات جیسے بیسیوں موضوعات کا مکمل احاطہ کرتا ہے، ان شعبوں سے متعلق ہر پہلو کے اصولی احکامات دیتا ہے، اگر اسلامی تعلیمات محض عقائد اور رسومات تک محدود ہوتیں تو ان احکامات و قوانین کی قرآن کریم میں موجودگی کی کوئی وجہ نہ ہوتی، لہذا اسلامی تعلیمات سے ہٹ کرمحض سوسائٹی کو اجتماعی زندگی سے متعلق فیصلوں کے اختیار دینے سے متعلق درج ذیل قرآنی آیات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ "سیکولرزم" کے نظریات قرآن ِکریم کی نظر میں اسلام کے متصادم ہیں۔
۱) جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔(سورة آل عمران: آیت نمبر: 85)
۲) اور وہ دن بھی یاد رکھو جب ہر امت میں ایک گواہ انہی میں سے کھڑا کریں گے اور (اے پیغمبر) ہم تمہیں ان لوگوں کے خلاف گواہی دینے کے لیے لائیں گے۔ اور ہم نے تم پر یہ کتاب اتار دی ہے تاکہ وہ ہر بات کھول کھول کر بیان کر دے، اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری کا سامان ہو۔(سورہ النحل: آیت نمبر: 89)
۳)اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کر دیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے یہ گنجائش ہے نہ کسی مومن عورت کے لیے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔ اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔(سورہ الاحزاب: آیت نمبر: 36)
۴)بیشک ہم نے تورات نازل کی تھی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا۔ تمام نبی جو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے، اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور تمام اللہ والے اور علماء بھی (اسی پر عمل کرتے رہے) کیونکہ ان کو اللہ کی کتاب کا محافظ بنایا گیا تھا، اور وہ اس کے گواہ تھے۔ لہذا (اے یہودیو) تم لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو، اور تھوڑی سی قیمت لینے کی خاطر میری آیتوں کا سودا نہ کیا کرو۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔( سورہ المآئدۃ: آیت نمبر: 44)
۵) پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟(سورہ الجاثیہ: آیت نمبر: 23)
ارشاد نبوی ﷺہے: حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لوگو!) میں تمہارے لیے والد کے درجے میں ہوں، تم کو (ہر چیز) سکھاتا ہوں۔۔۔الحدیث۔(سنن أبي داود: حدیث نمبر: 7)
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں علمائے کرام نے "سیکولرزم" نظریات کے حامل افراد سے متعلق شرعی حکم درج ذیل تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
"سیکولرزم" کے فتنے کا شکار ہونے والے لوگوں کى تین اقسام ہیں:
(۱) وہ لوگ جو "سیکولرزم" کے نظریے کے مطابق اجتماعى زندگى میں اسلام کى تعلیمات سے متعلق اعلانیہ طور پر انکار کر دیں تو ایسے لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہوں گے۔
(۲) ایسے لوگ جونام سے تو بظاہر مسلمان ہوں یعنی ظاہرى طور پر اسلام کو تسلیم کرتے ہوں، مگر دل میں کفرکوچھپائے ہوئے ہوں،ایسے لوگ منافق کے زمرے میں آئیں گے، ان کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ان سے مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔
(۳) وہ سادہ لوح مسلمان جودینى علم سے ناواقفیت اور ایمانى کمزورى کى وجہ سے "سیکولرزم" کے خوشنما الفاظ سے متاثر ہو کر یا اہل مغرب کے اسلام سے متعلق پھیلائے ہوئے گھناؤنے پروپیگنڈےسے متاثر ہو کر اپنے آپ کو "سیکولر مسلمان "کہتے ہوں تو ایسے لوگ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوں گے، لیکن یہ الفاظ اور خیالات سخت گمراہ کن ہیں، جو آگے چل کر دین ِاسلام کى تعلیمات سے متعلق مزید شکوک کو جنم لیں گے اور (معاذ اللہ )بالآخر پہلے زمرے کے لوگوں میں شمار ہونے لگیں گے۔
چونکہ ایسے لوگ اسلام کى آفاقیت اور اسلامى تعلیمات کى ہمہ گیریت سے ناواقف ہوتے ہیں، لہذا نہیں اسلامى تعلیمات سے متعلق علم حاصل کرنا چاہیے، نیز اسلام کے متعلق شکوک وشبہات کے حل کے لیے مستند علمائے کرام سے رہنمائى حاصل کرنى چاہیے۔ لہذا اگر کوئى غلطى سے اپنے آپ کو "سیکولر مسلمان" کہ دے تو اسے توبہ واستغفار کرنا چاہیے اور آئندہ ایسا جملہ کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (الأحزاب، الایة: 36)
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًاo

و قوله تعالی: (الجاثية، الایة: 23)
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَo

و قوله تعالی: (النحل، الایة: 89)
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَo

و قوله تعالی: (المائدة، الایة: 44)
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَo

و قوله تعالی: (المائدة، الایة: 48، 50)
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَo وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَo أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَo

و قوله تعالی: (النساء، الایة: 65)
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo

و قوله تعالی: (آل عمران، الایة: 85)
"وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ".

و قوله تعالی: (الانبیاء، الایة: 7)
فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَo

تفسير ابن كثير: (342/8، ط: مؤسسة قرطبة)
"ونزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء " قال ابن مسعود قد بين لنا في هذا القرآن كل علم وكل شيء وقال مجاهد كل حلال وكل حرام وقول ابن مسعود أعم وأشمل فإن القرآن اشتمل على كل علم نافع من خبر ما سبق وعلم ما سيأتي وكل حلال وحرام وما الناس إليه محتاجون في أمر دنياهم ودينهم ومعاشهم ومعادهم".

تفسير ابن كثير: (247/5، ط: مؤسسة قرطبة)
"وقوله تعالى" فاحكم بينهم بما أنزل الله " أي فاحكم يا محمد بين الناس عربهم وعجمهم أميهم وكتابيهم بما أنزل الله إليك من هذا الكتاب العظيم وبما فرض لك من حكم من كان قبلك من الأنبياء ولم ينسخه في شرعك هكذا وجهه ابن جرير بمعناه قال ابن أبي حاتم : حدثنا محمد بن عمار حدثنا سعيد بن سليمان حدثنا عباد بن العوام عن سفيان بن حسين عن الحكم عن مجاهد عن ابن عباس قال : كان النبي - صلى الله عليه وسلم - مخيرا إن شاء حكم بينهم وإن شاء أعرض عنهم فردهم إلى أحكامهم فنزلت "وأن احكم بينهم بما أنزل الله ولا تتبع أهواءهم " فأمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن يحكم بينهم بما في كتابنا وقوله " ولا تتبع أهواءهم " أي آراءهم التي اصطلحوا عليها وتركوا بسببها ما أنزل الله على رسله ولهذا قال تعالى " ولا تتبع أهواءهم عما جاءك من الحق" أي لا تنصرف عن الحق الذي أمرك الله به إلى أهواء هؤلاء من الجهلة الأشقياء".

تفسير ابن كثير: (140/4، ط: مؤسسة قرطبة)
"وقوله " فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم " يقسم تعالى بنفسه الكريمة المقدسة أنه لا يؤمن أحد حتى يحكم الرسول صلى الله عليه وسلم في جميع الأمور فما حكم به فهو الحق الذي يجب الانقياد له باطنا وظاهرا ولهذا قال " ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما " أي إذا حكموك يطيعونك في بواطنهم فلا يجدون في أنفسهم حرجا مما حكمت به وينقادون له في الظاهر".

سنن أبي داود: (كتاب الطهارة، باب التخلي عند قضاء الحاجة، رقم الحديث: 7)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما أنا لكم بمنزلة الوالد، أعلمكم...".

الدر المختار: (229/4، ط: دار الفکر)
"(و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو) كان ذلك (رواية ضعيفة) كما حرره في البحر، وعزاه في الأشباه إلى الصغرى. وفي الدرر وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر وواحد يمنعه فعلى المفتي الميل لما يمنعه، ثم لو نيته ذلك فمسلم وإلا لم ينفعه حمل المفتي على خلافه".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 829 Dec 20, 2019
Main aik secular musalman hoon kehnay walay ka hukm, mein, ek, muslim, hun, kehne, wale, Ruling about the one who says "I am a secular Muslim", what is someone says that he is a secular muslim

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.