resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کسی بھی اچھی بات کو حدیث کہنا(3014-No)

سوال: کیا کسی بھی اچھی بات کو حدیث کہہ سکتے ہیں؟

جواب: واضح رہے کہ حدیث جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب قول، فعل یا تقریر کو کہاجاتا ہے اور جب کوئی قول آپ ﷺ کی طرف منسوب کیاجائے تو اس قول کا ثبوت حدیث کی کسی مستند کتاب یا معتبر ماخذ میں ملتا ہو اور اس بارے میں جتنی احتیاط کی ضرورت ہے، ہم اتنی ہی بے احتیاطی کرنے لگے ہیں اور ہر طرح کی حدیث کو بیان کرنا ہمارا معمول بن گیا ہے اور اس میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں ہوتی،بلکہ ہم ہر حدیث کو بیان کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، خواہ اس کی کوئی اصل ہو یا نہ ہو ، چاہے اس کی کوئی سندِ معتبر ہو یا نہ ہو۔
اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بہت سی احادیث اور آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب واقعات رواج پارہے ہیں اور زبان زد عام ہورہے ہیں ،جن کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور کتب حدیث میں ان کا ذکر تک نہیں ملتا ہے، یہاں تک کہ کثرت رواج اور شہرت کی وجہ سے بعض دفعہ یہ احساس ہی ختم ہو جاتا ہے کہ ذہن کے کسی خانے میں یہ تصور اور شعور پیدا ہو کہ اس حدیث یا واقعے کی تحقیق کی جائے اور اس کی اصل اور سند کو تلاش کیا جائے کہ آیا یہ معتبر بھی ہے یا نہیں ؟ایسا نہ ہو کہ وہ بات جسے حدیث کہا جارہا ہے ، یا وہ واقعہ جسے آپ صلی الله علیہ و سلم یا آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب کیا جارہا ہے، اس کا کسی حدیث کی کتاب یا کسی معتبر ماخذ اور وثیقہ میں ثبوت ہی نہ ملتا ہو،بلکہ زمانہ قریب یا بعید سے اعداء دین اور ملحدین کی شرارت اور دسیسہ کاری یا کسی اپنے کے تساہل کی بنا پر اسلامی معاشرے میں داخل ہو کر رواج پا گیا ہو، جب کہ حدیث کے بارے میں جتنی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، شاید ہی کسی اور کام میں اتنی احتیاط کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر قصداً جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“(صحیح مسلم: حدیث نمبر:3)(۱)
علامہ نووی (م676 ھ) ’’شرح مسلم‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جس شخص کو خود ساختہ حدیث کے بارے میں علم ہو یا ظن غالب ہی ہو، تو اس کی ایسی روایت آگے بیان کرنا حرام ہے، چنانچہ جو شخص کسی حدیث کے بارے میں جانتا ہو یا اسے ظن غالب ہو کہ یہ حدیث خود ساختہ ہے، لیکن پھر بھی وہ یہ روایت اسکی حقیقت بیان کئے بغیر نشر کرتا ہے، تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے، اور رسول اللہ ﷺپر جھوٹ باندھنے والوں میں شمار ہوگا، اس کی دلیل گزشتہ حدیث میں ہے کہ: (جو شخص میری طرف منسوب ایسی حدیث بیان کرے جو واضح جھوٹ لگتی ہو، تو وہ دو بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے)
اسی لیے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: جو شخص بھی نبی ﷺکی طرف منسوب حدیث بیان کرنا چاہے تو وہ پہلے تحقیق کر لے، اگر صحیح یا حسن ہو تو واضح لفظوں میں کہہ دے: مثلاً: ’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا یا آپ ﷺنے ایسے کیا‘‘ اور اگر حدیث ضعیف ہے تو واضح لفظوں میں یہ نہ کہے کہ: مثلاً: ’’آپ ﷺنے ایسے فرمایا، یا ایسے عمل کیا، یا اسکا حکم فرمایا، یا اس سے منع کیا‘‘ بلکہ یہ کہے کہ: ’’کہا جاتا ہے، یا آپ ﷺسے یہ بات منسوب ہے، یا یہ کہے کہ میں نے سنا ہے‘‘ یا اسی طرح کے دیگر محتاط الفاظ استعمال کرے‘‘۔(۲)
خلاصہ ٔکلام:
کسی بھی اچھی بات کا حدیث ہونا ضروری نہیں ہے، جب تک کسی بات کا ثبوت کتب احادیث میں نہیں ملتا ہے تو اس بات کو حدیث نہیں کہا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(۱)صحيح مسلم:(1/10،رقم الحديث:3،ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كذب علي متعمدا، فليتبوأ مقعده من النار»

شرح النووي: (باب تغليظ الكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، 71/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
يَحْرُمُ رِوَايَةُ الْحَدِيثِ الْمَوْضُوعِ عَلَى مَنْ عَرَفَ كَوْنَهُ مَوْضُوعًا أَوْ غَلَبَ عَلَى ظَنِّهِ وَضْعُهُ فَمَنْ رَوَى حَدِيثًا عَلِمَ أَوْ ظَنَّ وَضْعَهُ وَلَمْ يُبَيِّنْ حَالَ رِوَايَتِهِ وَضْعَهُ فَهُوَ دَاخِلٌ فِي هَذَا الْوَعِيدِ مُنْدَرِجٌ فِي جُمْلَةِ الْكَاذِبِينَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَدُلُّ عَلَيْهِ أَيْضًا الْحَدِيثُ السَّابِقُ مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ وَلِهَذَا قَالَ الْعُلَمَاءُ يَنْبَغِي لِمَنْ أَرَادَ رِوَايَةِ حَدِيثٍ أَوْ ذَكَرَهُ أَنْ يَنْظُرَ فَإِنْ كَانَ صَحِيحًا أَوْ حَسَنًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا أَوْ فَعَلَهُ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ مِنْ صِيَغِ الْجَزْمِ وَإِنْ كَانَ ضَعِيفًا فَلَا يَقُلْ قَالَ أَوْ فَعَلَ أَوْ أَمَرَ أَوْ نَهَى وَشِبْهَ ذَلِكَ مِنْ صِيَغِ الْجَزْمِ بَلْ يَقُولُ رُوِيَ عَنْهُ كَذَا أَوْ جَاءَ عَنْهُ كَذَا أَوْ يُرْوَى أَوْ يُذْكَرُ أَوْ يُحْكَى أَوْ يقال أوبلغنا وَمَا أَشْبَهَهُ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

kia/kya kse/ksi bhi/bhe ache/achi baat ko hadees/hades khe keh sakte hen/hein

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees