resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: باندی کے ستر سے متعلق سنن کبری کی راویت (حضرت عمرؓ کی باندیاں ہماری خدمت کیا کرتی تھیں) کا صحیح ترجمہ اور تشریح(3041-No)

سوال: السنن الكبرى للبيهقي کی ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ "حضرت عمرؓ کی لونڈیاں مہمانوں کی ننگے سر خدمت کرتی تھیں اور ان کے پستان ٹکرا رہے ہوتے تھے" اس کا مطلب کچھ لوگ یہ نکالتے ہیں کہ لونڈیوں کے ناف سے اوپر کا جسم ننگا ہوتا تھا۔ " كُنَّ إِمَاءُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَخْدِمْنَنَا كَاشِفَاتٍ عَنْ شُعُورِهِنَّ تَضْرِبُ ثُدِيّهُنَّ ". اس حدیث کا صحیح ترجمہ اور مفہوم کیا ہے؟

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت کا ترجمہ اور تشریح درج ذیل ہے:
ترجمہ:سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں ہماری خدمت کیا کرتی تھیں، ان کے سر کے بالوں پر کپڑا نہ ہوتا تھا،ان کی چھاتیاں حرکت کرتی تھیں۔
امام بیہقی(م458ھ) نے اس روایت کو باب عورة الامة یعنی باندی کے ستر کے باب میں بیان کیا ہے اور اس باب میں انہوں نے چھ روایات ذکر فرمائی ہیں، جن میں سے چار روایات پر خود ہی کلام کیا ہے، البتہ موضوع بحث مذکورہ بالا "اثر " کو صحیح قرار دیا ہے۔(۱)
تشریح :
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ مرد کے جتنے اعضاء ستر ہیں، وہ باندی کے بھی ستر ہیں اور اس کا پیٹ اور اس کی پیٹھ ستر ہیں اور اس کے علاوہ اس کے بدن میں سے ستر نہیں ہے۔(۲) اور اس پر دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم ہے ۔ مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ حضرت عمر نے ایک لونڈی کو سر ڈھانپے ہوئے دیکھا تو اس کو درہ لگایا اور کہا کہ سر کو ننگا رکھو اور آزاد عورتوں کے مشابہ بننے کی کوشش نہ کرو۔(۳)
علامہ طحطاوی (م 1231ھ) نور الایضاح کی شرح مراقی الفلاح کے حاشیہ میں باندی کا ستر بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ باندی کے لیے گھونگھٹ کرنا مکروہ ہے، لیکن یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کے اعتبار سے ہے جہاں تک ہمارے زمانہ کی بات ہے تو باندی کے لیے گھونگھٹ کرنا ضروری ہے ۔(۴)
علامہ طحطاوی (م 1231ھ) کی یہ بات موید بالقرائن معلوم ہوتی ہے
1: عورتوں کا نماز پڑھنا مسجد میں کہ اس کو فتنہ کی بناء پہ ترک کردیاگیا، تو جب عورتوں کی مسجد میں نماز پر اصرار صحیح نہیں تو اس پر بھی اصرار کرنا درست نہ ہونا چاہیے۔
2: فقہ میں مسئلہ مذکور ہے کہ محارم کے جن اعضاء کا دیکھنا جائز ہے اگر ان کے دیکھنے سے شہوت پیدا ہوجائے تو ان کا بھی دیکھنا جائز نہ ہوگا اور اسی طرح فقہاء کہتے ہیں کہ اگر کوئی محرم غلط قسم کا ہو، تو اس سے پردہ کرنا چاہیے، تو جب محارم کے اعضاء کا شہوت کی بناء پر دیکھنا ناجائز ہے، تو نامحرم کو دیکھنا بطریقِ اولی ناجائز ہے، الحاصل یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم آزاد عورتوں سے تشبہ سے بچنے کے لیے دیا تھا، اور چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خیر القرون کا تھا، اور فتنہ کا اندیشہ نہ تھا، اور ہمارا زمانہ چونکہ فتن کا دور ہے، لہذا فقہ کے مشہور اصول ” کثیرا من الاحکام تختلف باختلاف الزمان‘‘ کہ بہت سے احکام زمانے کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں کی بناء پر بقول علامہ طحطاوی (م 1231ھ) باندی کا مکمل پردہ ہونا چاہیے۔
لہذا اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت انس نے جو تذکرہ کیا ہے اس کے اصل مقاصد یہ ہیں کہ
1۔ کام کے وقت لونڈی کے لیے اوڑھنی اوڑھنا ضروری نہیں۔
2۔ اگر کام کرتے وقت اعضائے جسمانی سے خود بخود بغیر نیت کے کچھ ظاہر ہو جائے، تو لونڈیاں اسے گناہ نہ سمجھیں، بلکہ اپنے رب کی رخصت شمار کریں۔
3۔ مسلمان اسے عیب نہ سمجھیں اور اس وجہ سے باندی کو کوئی سزا نہ دیں۔
4۔ اور نہ ہی کوئی بد باطن ان سے برائی کی طمع رکھے۔
5۔ باندیاں اپنے آقا کے حکم و اجازت سے دوسرے لوگوں کی خدمت بھی کر سکتی ہیں اور وہاں بھی پردے کی ایسی کیفیت بن سکتی ہے۔اس میں بھی کوئی گناہ نہیں۔
لہذا سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بنظرِ تفحش اسے بیان نہیں کیا،بلکہ بغرضِ ترخص بیان کیا ہے اور مراد اس سے مسئلہ کی وضاحت ہے، نہ کہ شہوانی تلذذ۔ اور یہی مطلب خود ہی امام بیہقی(م458ھ) نے بیان کیا ہے ۔
ترجمہ:سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آثار اس بارے میں صحیح ہیں اور اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ باندی کا سر، گردن اور کام کرتے ہوئے جو چیز ظاہر ہو جائے، ستر نہیں ہے۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(۱)السنن الکبری للبیھقي: (2/321،رقم الحديث:3222، ط: دار الکتب العلمية)
وأخبرنا أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله الحرفي ببغداد أنبأ علي بن محمد بن الزبير الكوفي، ثنا الحسن بن علي بن عفان، ثنا زيد بن الحباب، عن حماد بن سلمة قال: حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس، عن جده أنس بن مالك قال: " كن إماء عمر رضي الله عنه يخدمننا كاشفات عن شعورهن تضرب ثديهن "

(۲)الھدایة: (1/93، ط: مکتبہ رحمانية)
وما كان عورة من الرجل فهو عورة من الأمة وبطنهاه وظهرها عورة وما سوى ذلك من بدنها ليس بعورة " لقول عمر رضي الله عنه ألق عنك الخمار يا دفار أتتشبهين بالحرائر ولأنها تخرج لحاجة مولاها في ثياب مهنتها عادة فاعتبر حالها بذوات المحارم في حق جميع الرجال دفعا للحرج.

(۳)مصنف ابن ابی شیبة: (3/127، ط: مکتبة الرشد)
حدثنا وكيع قال : حدثنا شعبة عن قتادة عن أنس قال : " رأى عمر أمة لنا مقنعة فضربها وقال : لا تشبهين بالحرائر ".

(۴)حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (فصل فی متعلقات الشروط، ص: 241، ط: دار الکتب العلمیة)
يكره التقنع للأمة وهو كذلك لكن بالنسبة لزمن عمر رضي الله تعالى عنه أما في زماننا فينبغي أن يجب التقنع لا سيما في الإماء البيض لغلبة الفسق فيه۔

(۵) السنن الکبری للبیھقي: (2/321،رقم الحديث:3222، ط: دار الکتب العلمية)
والآثار عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في ذلك صحيحة وإنها تدل على أن رأسها ورقبتها وما يظهر منها في حال المحنة ليس بعورة۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Baandi kay satar say mutaaliq sunan e kubra ki riwayat ki tashreeh, Bandi ke satr se mutaliq, sunan-e-kubra, Interpretation of Sunan al-Kubra's narration about the satar of captives, Detailed description of, Sunan e Kubra

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees