سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ دو لوگوں نے مل کر موبائل کا کام شروع کیا، ایک نے پیسے انویسٹ کیے اور دوسرے نے کام کرنا ہے، جس نے پیسے انویسٹ کیے، وہ دکان پر بھی نہیں بیٹھے گا، سارا کام جس کے پاس انویسٹ کی ہے وہ کرے گا اور دکان بھی انویسٹر کی ہے، اس کا کرایا 10000 ہے۔
پوچھنا یہ ہے کہ کس کا کتنا پرافٹ ہوگا؟ اور ریپیرنگ کے کام میں بھی حصّہ دینا ہوگا یا صرف اس کے پیسے سے خریدی گئی موبائل اسیسری میں ہی حصّہ ہوگا؟ اور اگر دکان شروع کرتے وقت جلدی میں جس کے پاس انویسٹ کی جا رہی ہے وہ یہ کہ دے کہ ہر چیز میں آدھا آدھا ہوگا تو کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟ اب جب کچھ دیر کام کرنے کے بعد پتا چلا کہ یہ غلطی ہو گئی ہے تو اب اس معاہدہ کو ختم کرنے کی کیا صورت ہو گی؟
جواب: 1-سوال میں ذکر کی گئی صورت "مضاربت" کی ہے، جس میں ایک فریق کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے، اصولی طور پر یہ معاملہ شرعاً درست ہے۔
جہاں تک نفع کی تقسیم کا تعلق ہے تو چونکہ اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی مخصوص تناسب لازم نہیں کیا گیا، لہذا فریقین باہمی رضامندی سے کوئی بھی فیصدی تناسب (percentage) طے کرسکتے ہیں، البتہ نقصان کے متعلق شرعی اصول یہ ہے کہ نقصان کو پہلے تو (حاصل شدہ) منافع میں سے منہا کیا جائے گا، یہاں تک اصل سرمایہ کی مقدار پوری ہوجائے، اگر پورا منافع ہی نقصان میں ختم ہوجائے تو یعنی پھر اصل سرمایہ سے پورا کیا جائےگا، یعنی سارا نقصان ربّ المال (investor) برداشت کرے گا، اور مضارب (working partner) کی محنت ضائع ہوجائے گی، جس کے عوض اسے کچھ نہیں ملے گا، البتہ اگر نقصان مضارب کی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے ہوجائے تو سارا نقصان وہی برداشت کرے گا۔
2- دکان چونکہ ربّ المال(investor) کی ہے، اس لئے اس کا الگ سے کرایہ نہ لیا جائے بلکہ نفع کی تقسیم میں ہی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے رب المال کیلئے نفع کا تناسب باہمی رضامندی سے کچھ زیادہ مقرر کیا جاسکتا ہے، تاہم اگر الگ سے کرایہ ہی مقرر کیا گیا تو ایک قول کے مطابق اس کی بھی گنجائش ہے۔
3- ریپیئرنگ کا کام مضاربت والے معاملہ سے الگ ذاتی طور پر کیا جاسکتا ہے، لیکن پوچھی گئی صورت میں چونکہ دکان رب المال کی ہے جوکہ اس نے مضاربت کے کاروبار کیلئے دی ہے، آپ ریپیئرنگ والا کام اسی دکان میں اور انہیں اوقات میں کریں گے، اس لئے ریپیئرنگ کا کام ذاتی طور پر کرنے کے لیے رب المال کی اجازت ضروری ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (200/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا۔۔۔۔ قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة۔۔۔الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (656/5، ط: سعید)
"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی