سوال:
محترم مفتی صاحب! میں ایک گھریلو خاتون ہوں۔ میری شادی کو دس سال ہو چکے ہیں۔ الحمدللہ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے رہتی ہوں۔ میں شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتی، والدین سے معمول کی بات چیت کے علاوہ کسی سے غیر ضروری رابطہ نہیں رکھتی، مہمانوں اور سسرال والوں کی عزت کرتی ہوں اور کبھی بدتمیزی یا لڑائی نہیں کی۔
میری نندیں میرے اخلاق کو برا کہتی ہیں اور شوہر پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ دے۔ اسی طرح میرا دیور (جو میری بہن کا شوہر بھی ہے) بار بار میری برائی کرتا ہے اور میرے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس رویے سے گھر کا ماحول خراب ہے۔
بظاہر میرا شوہر بھی مجھ سے خوش ہے اور اکثر کہتا ہے کہ میں بہت سی عورتوں سے بہتر ہوں، لیکن ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ میں سو فیصد ٹھیک نہیں ہوں۔ اصل میں یہ اعتراضات زیادہ تر میری نندوں کی طرف سے آتے ہیں اور میرے شوہر کو لگتا ہے کہ میں اس کے گھر والوں سے ٹھیک نہیں ہوں، صرف اس لیے وہ مجھے چھوڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
اب یہ ڈیڑھ ماہ پہلے میرے دیور، میرے شوہر اور دیور کی بیوی کی آپس میں لڑائی ہو رہی تھی، میرا اس میں کوئی قصور نہیں تھا لیکن میرے شوہر نے صلح صفائی سے مجھے امی کی طرف چھوڑ دیا، لیکن اب تقریبا ڈیڑھ ماہ سے وہ مجھے لینے نہیں آرہا، اس کا کہنا یہ ہے کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا، نہ مجھے مجھ سے بات کرتا ہے اور نہ ہی اس نے بچوں کا کوئی خرچہ بھیجا ہے۔ میری بھابھی جو کہ میری نن بھی ہے، وہ پنڈی میں موجود ہیں، مطلب میرے شوہر کے گھر پر موجود ہے۔ اس کا شور باہر ہوتا ہے، مطلب ذاتی طور پر میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر کسی کا بھی مسئلہ ہوتا ہے یعنی میرے گھر والوں کا یا پھر میری بھابھی کا تو مجھے بیچ میں شامل کیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں میرے آپ سے مؤدبانہ سوالات یہ ہیں کہ:
1) کیا اسلام میں ایسی باتوں کی بنیاد پر بیوی کو چھوڑ دینا درست ہے؟
2) کیا شادی کے کامیاب ہونے کے لیے شوہر یا بیوی کا 100٪ کامل ہونا ضروری ہے؟
3) قرآن و حدیث کی روشنی میں شوہر اور بیوی کے تعلقات کا اصل معیار کیا ہونا چاہیے؟
4) ایسے حالات میں میرے لیے شریعت کی روشنی میں کیا صبر اور طرزِ عمل اختیار کرنا بہتر ہے؟
براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً کثیراً
والسلام آپ کی بہن فی سبیل اللہ
جواب: واضح رہے کہ دنیا میں کوئی بھی انسان مکمّل پیدا نہیں ہوتا، ہر شخص میں کسی نہ کسی حد تک کمزوری یا خامی موجود ہوتی ہے، اور زندگی کا حسن اسی بات میں ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کر کے تعلّقات کو قائم رکھیں۔ خاص طور پر میاں بیوی کا رشتہ چونکہ نہایت نازک اور حسّاس ہوتا ہے، اس لیے اس رشتے میں زیادہ صبر، درگزر اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا"
ترجمہ: "اور ان (اپنی بیویوں) کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللّٰہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بھلائی رکھ دی ہو۔" (سورۃ النساء: 19)
لہٰذا میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں کو برداشت کرتے ہوئے محبّت اور درگزر سے کام لیں اور اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائیں، کیونکہ بغیر کسی شرعی عذر کے بیوی کو طلاق دینا اللّٰہ تعالی کو ناپسند ہے، چنانچہ اسی سے متعلّق ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: "اللّٰہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور غُصّہ دلانے والی چیز طلاق ہے"۔ (سنن ابو داؤد،حدیث نمبر:2178)
پس مذکورہ صورت میں شوہر پر شرعاً لازم ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو گھر واپس لا کر اس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے اور اپنے بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری کو خوش دلی سے ادا کرے۔ البتہ اگر شوہر صلح پر آمادہ نہ ہو اور بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرے تو اس صورت میں وہ خود گناہ گار ہوگا۔
ایسے حالات میں دونوں خاندانوں کے سمجھ دار اور معزز افراد کو چاہیے کہ وہ صلح کی کوشش کریں۔ تاہم اگر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی شوہر آپ کو اور بچوں کو گھر واپس لانے اور نان و نفقہ دینے پر آمادہ نہ ہو تو آپ کو چاہیے کہ صبر، دعا اور حکمت کے ساتھ معاملہ کو اللہ کے سپرد کردیں، ان شاءاللہ، اللّٰہ تعالیٰ کی معیّت آپ کے ساتھ ہوگی۔
چنانچہ صبر کرنے والوں سے متعلق قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ: إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
ترجمہ: بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ البقرہ: 153)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ،233)
وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٝ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ
القرآن الکریم:(سورۃ النساء،19)
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰهُ فِیۡهِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا.
القرآن الکریم:(سورۃ البقرۃ:153)
إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
سنن لأبی داؤد: (باب فی کراھیة الطلاق، رقم الحدیث: 2178)
حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ".
الدّر المختار:(باب النفقة،572/3،ط: سعید)
(ﻫﻲ اﻟﻄﻌﺎﻡ ﻭاﻟﻜﺴﻮﺓ ﻭاﻟﺴﻜﻨﻰ) ﻭﻋﺮﻓﺎ ﻫﻲ: اﻟﻄﻌﺎﻡ (ﻭﻧﻔﻘﺔ اﻟﻐﻴﺮ ﺗﺠﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻐﻴﺮ ﺑﺄﺳﺒﺎﺏ ﺛﻼﺛﺔ: ﺯﻭﺟﻴﺔ، ﻭﻗﺮاﺑﺔ، ﻭﻣﻠﻚ) ﺑﺪﺃ ﺑﺎﻷﻭﻝ ﻟﻤﻨﺎﺳﺒﺔ ﻣﺎ ﻣﺮ ﺃﻭ؛ ﻷﻧﻬﺎ ﺃﺻﻞ اﻟﻮﻟﺪ (ﻓﺘﺠﺐ ﻟﻠﺰﻭﺟﺔ) ﺑﻨﻜﺎﺡ ﺻﺤﻴﺢ، ﻓﻠﻮ ﺑﺎﻥ ﻓﺴﺎﺩﻩ ﺃﻭ ﺑﻄﻼﻧﻪ ﺭﺟﻊ ﺑﻤﺎ ﺃﺧﺬﺗﻪ ﻣﻦ اﻟﻨﻔﻘﺔ ﺑﺤﺮ (ﻋﻠﻰ ﺯﻭﺟﻬﺎ) ؛ ﻷﻧﻬﺎ ﺟﺰاء اﻻﺣﺘﺒﺎﺱ، ﻭﻛﻞ ﻣﺤﺒﻮﺱ ﻟﻤﻨﻔﻌﺔ ﻏﻴﺮﻩ ﻳﻠﺰﻣﻪ ﻧﻔﻘﺘﻪ.
ردّ المحتار: (باب الخلع،441/3،ط: سعید)
و في القھستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أهلهما لیصلحوا بینهما، فإن لم یصطلحا جاز الطلاق و الخلع. و هذا هو الحکم المذکور في الآیة.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصّواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی