resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بیوی کے مطالبہ پر شوہر کا چھ مرتبہ لفظ "طلاق" کہنے کا حکم (32284-No)

سوال: السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ، مفتی صاحب! پچھلا سوال لکھنے میں غلطی ہوگئی تھی، اصل مسئلہ یہ ہے کہ میاں بیوی میں جھگڑا چل رہا تھا، جھگڑے کے دوران بیوی نے کہا مجھے طلاق دیدو، شوہر نے کہا: طلاق دیدی طلاق طلاق طلاق طلاق طلاق دیدی، یعنی صرف دو مرتبہ مکمل جملہ کہا کہ طلاق دیدی اور یہ تکرار محض تاکید ویقین کے لئے تھا اور پھر بیس پچیس منٹ کے بعد بیوی نے پوچھا تو شوہر نے کہا میں آپ کو طلاق دے چکا ہوں اور پھر بھی نہیں کہا کہ تین دے چکا ہوں، اب دونوں بہت ہی پشیمان ہیں اور دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور شوہر بھی کہہ رہا ہے کہ میں نے تین طلاق نہیں دی اور نہ تین کی نیت کی تو قضاءً و دیانۃً کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت سے متعلق جواب سے پہلے طلاق بطور تمہید چند باتوں کو سمجھ لیں تو جواب کا سمجھنا آسان ہوجائے گا:
1) شوہر اگر طلاق دیتے وقت صریح الفاظ استعمال کرے تو اس میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا، لہذا شوہر کا یہ کہنا معتبر نہ ہوگا کہ میری لفظ "طلاق" سے کوئی نیّت نہیں تھی۔
2) وقوعِ طلاق کے لیے عورت کی طرف صریح لفظوں میں اضافت ضروری نہیں ہے، بلکہ اضافت معنوی بھی کافی ہے، لہذا بیوی کے طلاق کے مطالبے پر شوہر کا جواب میں "طلاق، طلاق یا طلاق دیدی" کہنا یہ عورت کی طرف ہی منسوب سمجھا جائے گا، اگرچہ شوہر نے صریح لفظوں میں اضافت نہ کی ہو اور مکمل جملہ نہ کہا ہو۔

اس تمہید کی روشنی میں سوال میں ذکر کردہ صورت میں بیوی کے طلاق کے مطالبہ پر شوہر کا چھ مرتبہ لفظ "طلاق" کہنے سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور اپنے شوہر پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ نیز واضح رہے کہ جب عورت نے اپنے کانوں سے تین مرتبہ الفاظِ طلاق سن لیے تو اب اس پر شرعاً لازم ہوگا کہ شوہر سے جدائی اختیار کرے۔
ہاں! اگر عورت عدّت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرلے اور اس سے ازدواجی تعلّقات بھی قائم کرلے، پھر وہ اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ عورت عدّت گزار کر دوبارہ سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (248/3، ط: دار الفکر)
ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اه. .... وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم

الھندية: (356/1، ط: دار الفکر)
ولو قالت طلقني ثلاثا فقال أنت طالق أو فأنت طالق فهي واحدة ولو قال قد طلقتك فهي ثلاث كذا في السراج الوهاج ولو قالت أنا طالق فقال نعم طلقت ولو قاله في جواب طلقني لا تطلق وإن نوى

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية: (37/1، ط: دار المعرفة)
«وقال في الخانية لو قال أنت طالق أنت طالق أنت طالق وقال أردت به التكرار صدق ديانة وفي القضاء طلقت ثلاثا. اه. ومثله في الأشباه والحدادي وزاد الزيلعي أن ‌المرأة ‌كالقاضي فلا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به لأنها لا تعلم إلا الظاهر. اه»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce