resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: راستے میں بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے گھر پر نماز پڑھنے کا حکم (32298-No)

سوال: بارش ہونے کے بعد میرے گھر اور مسجد کے درمیان راستے میں سڑک پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور نماز کے لیے کافی دقت ہوتی ہے، بعض دفعہ ٹریفک والوں کی وجہ سے کپڑوں پر پانی کی چھینٹیں بھی آجاتی ہیں تو کیا ان حالات میں گھر نماز پڑھ سکتا ہوں؟

جواب: واضح رہے کہ فرض نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا سنتِ مؤکدہ قریب بہ واجب ہے، اور بلا کسی شرعی عذر کے گھر میں نماز پڑھنا جائز نہیں، پوچھی گئی صورت میں بارش کے بعد سڑکوں پر جمع ہونے والے پانی کے پاک یا ناپاک ہونے کی تفصیل یہ ہے:
اگر وہ خالص بارش کا پانی ہو (یعنی اس میں گٹر کے پانی یا کسی ناپاک چیز کی آمیزش نہ ہو) تو وہ پانی شرعاً پاک ہے، اگر ایسا پانی کپڑوں یا جسم پر لگ جائے تو کپڑے ناپاک نہیں ہوتے، البتہ اگر بارش کے پانی میں گٹر کا پانی یا کوئی دوسری نجاست شامل ہو جائے، تو ایسی صورت میں جب تک نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو تو ضرورتِ عامّہ کے پیشِ نظر اس پانی کو ناپاک قرار نہیں دیا جائے گا، البتہ اگر نجاست کا اثر واضح طور پر نظر آئے تو کپڑوں کو پاک کرنا ضروری ہوگا۔
تاہم اگر راستے میں پانی یا کیچڑ اس قدر زیادہ ہو کہ پھسلنے، گڑھوں میں گرنے یا کسی اور نقصان میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں گھر پر نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

حاشیة ابن عابدین: (1/ 324،ط:سعید)
"مطلب في العفو عن طين الشارع"
(قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اه. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اه.
أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اه.

حاشية ابن عابدين: (1/ 552،ط:سعید)
(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)
(قوله قال الزاهدي إلخ) توفيق بين القول بالسنية والقول بالوجوب الآتي، وبيان أن المراد بهما واحد أخذا من استدلالهم بالأخبار الواردة بالوعيد الشديد بترك الجماعة. وفي النهر عن المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة اه وهذا كجوابهم عن رواية سنية الوتر بأن وجوبها ثبت بالسنة قال في النهر: إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها مرة بلا عذر يوجب إثما مع أنه قول العراقيين. والخراسانيون ن على أنه يأثم إذا اعتاد الترك كما في القنية. اه.

اعلاء السنن: (4/ 319،ط: المکتبه الوحیدیه)
والأمر الجامع في جميع الأعذار هو كونها بحيث يشق على المصلي الحضور في المسجد والجماعة، أو لايحضر قلبه في الصلاة بها، وهو ظاهر غير خفي، فيدخل فيها ما يكون بمعناها مما لاذكر له في الأحاديث.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)