resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حالت حیض اور فون پر دی گئی طلاق کا حکم (32315-No)

سوال: میری شادی کو چار سال ہو چکے ہیں اور میرا ایک بچہ ہے جس کی عمر ایک سال ہے۔ میرے شوہر نے مجھے تقریباً ساڑھے تین سال پہلے ایک بار طلاق دی تھی، لیکن ہم نے چند دنوں کے اندر رجوع کر لیا تھا، اس کے ڈیڑھ سال بعد جب ہمارا بچہ پیدا ہوا اور میں حیض (ماہواری) میں تھی تو شوہر نے دوبارہ طلاق دے دی، لیکن پھر چند دنوں میں ہی رجوع کر لیا، اب اس نے تیسری بار طلاق دی ہے جو چند دن پہلے ہوئی ہے، اور اس بار اس نے فون پر میرے والد کو گواہ بنایا اور کہا:
“دو طلاقیں پہلے ہو چکی ہیں، اب میں اسے آخری (تیسری) طلاق دے رہا ہوں۔”
لیکن اب شوہر کو یاد آیا ہے کہ دوسری طلاق حیض کے دوران دی گئی تھی جو شرعاً شمار نہیں ہوتی اور وہ مجھے رکھنا چاہتا ہے جبکہ میرے والد کہہ رہے ہیں کہ اس نے مجھے گواہ بنایا تھا، اس لیے طلاق ہو گئی ہے۔ مزید یہ کہ پہلی اور تیسری طلاق فون پر دی گئی تھیں، صرف دوسری طلاق زبانی (سامنے) دی گئی تھی جو حیض کی حالت میں تھی۔
مہربانی فرما کر رہنمائی کریں کہ کیا ہم ابھی بھی میاں بیوی کے رشتے میں ہیں؟

جواب: واضح رہے کہ حالتِ حیض (ماہواری) کے دوران طلاق دینا ناجائز اور گناہ ہے، لیکن اگر شوہر نے طلاق دے دی ہو تو وہ واقع ہو جاتی ہے، اسی طرح فون پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ پر تين طلاقيں واقع ہوگئی ہیں، آپ دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
ہاں! اگر آپ عدّت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرلیں اور اس سے ازدواجی تعلّقات بھی قائم کرلیں، پھر وہ آپ کو اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو ایسی صورت میں آپ عدّت گزار کر دوبارہ سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ... الخ

روح المعانی: (البقرۃ، الایة: 230)
"فإن طلقها‘‘ متعلقا بقوله سبحانه ’’الطلاق مرتان‘‘ .... فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ أي من بعد ذلك التطليق حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ أي تتزوّج زوجا غيره، ويجامعها

الدر المختار مع رد المحتار: (232/3، ط: دار الفکر)
'' (والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال: والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعاً للمعصية۔
(قوله: وتجب رجعتها) أي الموطوءة المطلقة في الحيض (قوله: على الأصح) مقابله قول القدوري: إنها مستحبة ؛ لأن المعصية وقعت فتعذر ارتفاعها، ووجه الأصح قوله صلى الله عليه وسلم لعمر في حديث ابن عمر في الصحيحين: «مر ابنك فليراجعها»، حين طلقها في حالة الحيض، فإنه يشتمل على وجوبين: صريح وهو الوجوب على عمر أن يأمر، وضمني وهو ما يتعلق بابنه عند توجيه الصيغة إليه، فإن عمر نائب فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم فهو كالمبلغ، وتعذر ارتفاع المعصية لا يصلح صارفاً للصيغة عن الوجوب لجواز إيجاب رفع أثرها وهو العدة وتطويلها ؛ إذ بقاء الشيء بقاء ما هو أثره من وجه فلا تترك الحقيقة، وتمامه في الفتح۔ (قوله: رفعاً للمعصية) بالراء، وهي أولى من نسخة الدال، ط أي لأن الدفع بالدال لما لم يقع والرفع بالراء للواقع والمعصية هنا وقعت، والمراد رفع أثرها وهو العدة وتطويلها كما علمت ؛ لأن رفع الطلاق بعد وقوعه غير ممكن''.

الھندیة: (كتاب الطلاق، باب الرجعة، 473/1، ط: دار الفكر بيروت)
"وإن كان الطلاق ثلاثا في ‌الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce