سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے آپ خیریت اور ایمان کی بہترین حالت میں ہوں گے۔
میں یہ پیغام نہایت عاجزی کے ساتھ آپ کی خدمت میں ایک نہایت اہم اور نازک مسئلے پر رہنمائی کے لیے لکھ رہا ہوں، جو میری اور میرے خاندان کی زندگی سے متعلق ہے۔ میں گزشتہ دس سالوں سے جرمنی (جو کہ ایک غیر مسلم ملک ہے) میں مقیم ہوں۔ میں ایک عملی مسلمان ہوں، پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہوں، شادی شدہ ہوں اور میرے دو چھوٹے بچے ہیں۔ اس وقت ہم ایک کرائے کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں جس میں صرف دو کمرے ہیں، اور جیسے جیسے بچے بڑے ہو رہے ہیں، اتنی محدود جگہ میں رہنا ہمارے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جگہ کی کمی ہمارے گھریلو سکون اور خاندانی زندگی پر اثر ڈال رہی ہے۔
مزید یہ کہ کرائے کے مکان میں رہنے کی وجہ سے دیگر مشکلات بھی درپیش ہیں۔ میرے بچے چونکہ چھوٹے اور شرارتی ہیں، اس لیے اکثر شور مچاتے ہیں، جس کی وجہ سے پڑوسی شکایت کرتے ہیں اور کبھی کبھار پولیس بھی آ جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال ہمارے لیے مستقل ذہنی دباؤ اور بے سکونی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
بڑھتے ہوئے کرایوں اور بہتر پائیدار رہائش کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے میں گھر خریدنے کا سوچ رہا ہوں۔ ہمارے علاقے میں ایک سادہ گھر کی اوسط قیمت تقریباً چار لاکھ یورو (400,000 €) ہے۔ میں نے دوستوں اور رشتہ داروں سے مالی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن بدقسمتی سے کوئی اتنی بڑی رقم دینے کے قابل نہیں۔
میں نے اسلامی بینک یا شریعت کے مطابق فانانسنگ کے امکانات بھی تلاش کیے، لیکن اپنے علاقے میں کوئی قابلِ عمل حل نہیں ملا۔ اس وقت میرے سامنے واحد عملی راستہ ایک روایتی (غیر اسلامی) بینک سے مورگیج لینا ہے، جس میں سود (interest) کی ادائیگی تقریباً 15 سے 20 سال تک جاری رہے گی۔
ان حالات کے پیشِ نظر میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ کیا میری موجودہ مجبوری، متبادل کے فقدان، مشکلات اور اپنے خاندان کی بھلائی کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے لیے روایتی بینک سے مورگیج لے کر گھر خریدنا جائز ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں واضح طور پر ربا (سود) کی حرمت ذکر کی گئی ہے، اور اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ پوچھی گئی صورت میں غیر مسلم ممالک میں مورگیج (Mortgage) پر گھر سود کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، اس لئے عام حالات میں سود کی بنیاد پر گھر لینے کا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے۔
صرف سخت مجبوری اور اضطراری حالت میں بقدر ضرورت اس کی گنجائش دی جاتی ہے، لیکن پوچھی گئی صورت میں چونکہ کرایہ کے گھر سے رہائش کی بنیادی ضرورت پوری ہورہی ہے تو اب محض گھر کی ملکیت حاصل کرنا یا کرایہ کے گھر پر رہنے کی مشکلات سے بچنا اس درجہ کی سخت مجبوری اور اضطراری حالت میں داخل نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے سودی معاملہ کرنے کی گنجائش دی جاسکے، لہذا محض اس کو بنیاد بنا کر مورگیج پر گھر لینا جائز نہیں ہے، البتہ اس کے متبادل کے طور وہاں کسی ادارے یا افراد کے ساتھ مل کر کوئی جائز طریقہ تمویل (Financing mode) اختیار کرتے ہوئے یہ سہولت حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم :(البقرة، الآية: 275)
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 78- 79)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1598، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن جابر قال: «لعن رسول الله صلى الله عَليه وسلم آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وقال: هم سواء
شرح القواعد الفقهية (ص: 210)
والظاهر أن ما يجوز للحاجة إنما يجوز فيما ورد فيه نص يجوزه، أو تعامل، أو لم يرد فيه شيء منهما ولكن لم يرد فيه نص يمنعه بخصوصه وكان له نظير في الشرع يمكن إلحاقه به وجعل ما ورد في نظيره واردا فيه
الموسوعة الفقهية الكويتية (6/ 166)
وفي الأشباه لابن نجيم، ومثله في المنثور للزركشي: ما حرم أخذه حرم إعطاؤه، كالربا ومهر البغي وحلوان الكاهن والرشوة للحاكم إذا بذلها ليحكم له بغير الحق، إلا في مسائل في الرشوة لخوف على نفسه أو ماله أو لفك أسير أو لمن يخاف هجوه. وينبغي أن يكون مثله إعطاء الربا للضرورة فيأثم المقرض دون المقترض.
بحوث فی قضایا فقھیة معاصرۃ:357/1، ط. مکتبة دارالعلوم کراتشی)
أما البنوك التي يملكها غير المسلمين في البلاد غير المسلمة، فقد ذھب العلماءالمعاصرين إلى جواز الإيداع فيھا، والانتفاع بالفوائد الحاصلة منھا على قول أبي حنيفة رحمه اللہ تعالي من أنه يجوز أخذمال الحربي برضاه، وأنه لا ربا بين المسلم والحربي. وإن ھذا القول لم يقبله جمھور الفقھاء، حتي إنه لم يفت به الفقھاء المتأخرون من الحنفية، وبما أن حرمة الربا منصوص بنص قطعي يؤذن بحرب من الله ورسوله لمن لا يتركه فلا ينبغي في عموم الأحوال أن يد خل المسلم في معاملة الربا وإن كانت مع الحربيين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی