resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حیض، غصہ اور گواہوں کی غیر موجودگی میں طلاق دینے کا حکم (32399-No)

سوال: میری اور میرے شوہر کے درمیان لڑائی ہوتی تھی،اور وہ مجھے طلاق دے دیتے تھے۔ آخری طلاق کے وقت مجھے حیض (پیریڈز) آیا ہوا تھا ، صرف ایک دن ہوا تھا اور ایک دن پہلے ہمبستری بھی ہوئی تھی، نیز وہ غصے میں بھی تھے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں تھا۔کیا اس حالت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع ہوجاتی ہے، اسی طرح حالتِ حیض (period) میں طلاق دینا اگرچہ ناجائز اور گناہ ہے، تاہم اس حالت میں دی گئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے، نیز طلاق واقع ہونے کے ليے گواہوں کی موجودگی بھی ضروری نہیں ہے۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں شوہر نے اگر اس سے پہلے ایک طلاق دی ہو تو یہ دوسری طلاق شمار ہوگی، اس کے بعد شوہر اگر عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتا ہے تو آپ کا نکاح برقرار رہے گا، اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزر جانے کے بعد عورت شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی، ایسی صورت میں اگر زوجین ساتھ رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح جدید کرسکتے ہیں، البتہ اگر شوہر نے اس سے پہلے دو طلاقیں دی ہوں تو یہ تیسری طلاق شمار ہوگی اور اس صورت میں بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
ہاں! اگر عورت عدّت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرلے اور اس سے ازدواجی تعلّقات بھی قائم کرلے، پھر دوسرا شوہر اس عورت کو اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو ایسی صورت میں عورت عدّت گزار کر دوبارہ سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ... الخ

روح المعانی: (البقرۃ، الایة: 230)
"فإن طلقها‘‘ متعلقا بقوله سبحانه ’’الطلاق مرتان‘‘ .... فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ أي من بعد ذلك التطليق حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ أي تتزوّج زوجا غيره، ويجامعها


تفسير القرطبي: (18/ 157،ط:دار الكتب المصرية)
وأشهدوا ذوي عدل منكم) فيه ست مسائل: الأولى- قوله تعالى: وأشهدوا ‌أمر ‌بالإشهاد ‌على ‌الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق.

الدر المختار مع رد المحتار: (232/3، ط: سعید)
(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال: والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعاً للمعصية۔

رد المحتار: (234/3 ، ط: دار الفکر)
"(قوله: و النفاس کالحیض) قال فی البحر: و لما كان المنع منه الطلاق في الحیض لتطویل العدة علیها كان النفاس مثله، كما في الجوهرة."

الجوهرة النيرة: (2/ 50،ط:المطبعة الخيرية)
قال رحمه الله (وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين ‌فله ‌أن ‌يراجعها ‌في ‌عدتها رضيت بذلك أو لم ترض) إنما شرط بقاؤها في العدة لأنها إذا انقضت زال الملك وحقوقه فلا تصح الرجعة بعد ذلك وقوله رضيت أو لم ترض۔

الھندیة: (كتاب الطلاق، باب الرجعة، 473/1، ط: دار الفكر بيروت)
"وإن كان الطلاق ثلاثا في ‌الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce