عنوان:
اولاد کے درمیان مساوات کی ایک صورت کا حکم(3373-No)
سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر والدین بفضل خدا حیات ہوں اور ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوں، اور والد کے دوذاتی مکان سے کرائے کی مد میں تقریبا انچاس ہزار ملتے ہوں، تو کیا شادی شدہ بیٹی کو ان پیسوں میں سے کچھ دینا ضروری ہے، اور اگر ہے، تو اسے ماہانہ کتنی رقم دی جائے؟
جواب: واضح رہے کہ والد اپنی زندگی میں اپنے مال وجائیداد کا بذات خود مالک ہے، اور مرنے سے پہلے اولاد کااس کے مال وجائیداد میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں والد کی زندگی میں اولاد میں سے کسی ایک کو والد کے مال میں سے کوئی حصہ ملنا لازم نہیں ہے، البتہ زندگی میں باپ کی طرف سے اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ(گفٹ) ہوتا ہے، اور اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے، لیکن اگر وہ کسی بچے کو کسی معقول وجہ (مثلا اولاد میں سے کوئی زیادہ غریب، یا زیادہ خدمت گزار ہو، یا علم دین میں مشغول ہو، یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے، تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ اگر تمام اولاد برابر ہے، تو تمام اولاد کو برابر دینا چاہیے، برابری کی صورت میں اگر کسی بچہ کو کم زیادہ دے یا محروم کرے، تو وہ گناہ گار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (كتاب الهبة، 127/6، ط: دار الكتب العلمية)
وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9].
(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.
عمدة القاري: (کتاب الھبۃ، 146/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
يجوز التَّفَاضُل إِن كَانَ لَهُ سَبَب، كاحتياح الْوَلَد لزمانته أَو دينه أَو نَحْو ذَلِك. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: تجب التَّسْوِيَة إِن قصد بالتفضيل الْإِضْرَار، وَذهب الْجُمْهُور إِلَى أَن التَّسْوِيَة مُسْتَحبَّة، فَإِن فضل بَعْضًا صَحَّ وَكره، وحملوا الْأَمر على النّدب وَالنَّهْي على التَّنْزِيه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Aulad kay darmian masawaat ki aik soorat ka hukm, Awlad, ke, darmiaan, musawaat, surat, hukum,
Ruling on a form of equality in children, amongst children, kind of equality, condition of equality