resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: اولاد کے درمیان میراث کے اصول کے مطابق جائیداد تقسیم کرنا(3373-No)

سوال: عرض یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیداد سے کوئی مکان یا مال کم زیادہ دے دے تو اس میں شریعت کیا کہتی ہے؟ جیسے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، دو بیٹے بیٹی کے اپنے گھر ہیں، والد اپنا گھر باقی بچوں میں تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے؟ مختصر سوال یہ ہے کہ جو اولاد ضرورت مند ہو، اس کو اس کی ضرورت کے مطابق مال یا گھر دے دیا جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ والد اپنی زندگی میں اپنے مال وجائیداد کا بذات خود مالک ہے، اور مرنے سے پہلے اولاد کا اس کے مال وجائیداد میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے۔ زندگی میں باپ کی طرف سے اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ (گفٹ) ہوتا ہے، اور اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے، لیکن اگر وہ کسی بچے کو کسی معقول وجہ (مثلاً اولاد میں سے کوئی زیادہ غریب، یا زیادہ خدمت گزار ہو، یا علم دین میں مشغول ہو، یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ اگر تمام اولاد برابر ہے تو تمام اولاد کو برابر دینا چاہیے، برابری کی صورت میں اگر کسی بچہ کو کم زیادہ دے یا محروم کرے تو وہ گناہ گار ہوگا، البتہ اگر میراث کے اصول کے مطابق لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دگنا دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (كتاب الهبة، 127/6، ط: دار الكتب العلمية)
وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9].
(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.

عمدة القاري: (کتاب الھبۃ، 146/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
يجوز التَّفَاضُل إِن كَانَ لَهُ سَبَب، كاحتياح الْوَلَد لزمانته أَو دينه أَو نَحْو ذَلِك. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: تجب التَّسْوِيَة إِن قصد بالتفضيل الْإِضْرَار، وَذهب الْجُمْهُور إِلَى أَن التَّسْوِيَة مُسْتَحبَّة، فَإِن فضل بَعْضًا صَحَّ وَكره، وحملوا الْأَمر على النّدب وَالنَّهْي على التَّنْزِيه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Aulad kay darmian masawaat ki aik soorat ka hukm, Awlad, ke, darmiaan, musawaat, surat, hukum, Ruling on a form of equality in children, amongst children, kind of equality, condition of equality اولاد کے درمیان مساوات کی ایک صورت

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster