سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے معاشرے کے اندر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگ اپنی بیٹیوں کی وجہ سے بیٹوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی عمریں نکل جاتی ہیں، یا بہت دیر ہو جاتی ہے، کیا شریعت کی رو سے یہ طریقہ صحیح ہے؟ اور اس دوران اگر وہ لڑکے کسی گناہ میں ملوث ہوگئے، تو اس کا وبال کس پر ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ والدین کے لئے شرعی حکم یہ ہے کہ مناسب رشتہ ملنے پر جلد از جلد شادی کر دی جائے، تاکہ نوجوان نسل اپنے جوانی کے جذبات کی وجہ سے غلط قدم نہ اٹھا لیں، ورنہ والدین بھی گناہ میں ان کے ساتھ شریک ہوں گے، لیکن اگر مناسب رشتہ ہی نہ ملے، تو والدین پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 286)
لا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۔۔۔۔الخ
مشکوٰۃ المصابیح: (الفصل الثالث، ص: 271)
عن أبي سعید وابن عباس قالا: قال رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم من ولد لہ ولد فلیحسن اسمہ واَدِّبہ فإذا بلغ فلیزوجہ فإن بلغ ولم یزوجہ فأصاب إثما فإنما إثمہ علی أبیہِ۔
وعن عمر بن الخطابؓ وأنس بن مالک عن رسول اللّٰہﷺ في التوراۃ مکتوب من بلغت ابنتہ اثنتي عشرۃ سنۃ ولم یزوجھا فأصابت إثما فإثم ذلک علیہِ رواھما البیھقی في شعب الإیمان۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی