عنوان:
رضی اللہ عنہ، علیہ السلام، رحمۃ اللہ علیہ اور کرم اللہ وجہہ کے معانی اور ان کے استعمال کا حکم (3440-No)
سوال:
مفتی صاحب! رہنمائی فرمائیں کہ رَضِی اللہ عنہ، علیہ السّلام اور رحمةُ اللہ کا استعمال کن ہستیوں کے ناموں کے ساتھ کرنا چاہیے اور ان کے معانی کیا ہیں؟ نیز یہ بھی بتائیے کہ کچھ لوگ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے لیے علیہ السلام اور کچھ لوگ اولیاء کرام کے لیے رضی اللہ عنہ استعمال کرتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ مزید یہ بھی بتائیں کہ حضرت علی کے لیے کرم اللہ وجہہ کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بنی نوع انسان کی برگزیدہ ہستیوں کے مبارک ناموں کے ساتھ مختلف دعائیہ کلمات استعمال کیے جاتے ہیں، ذیل میں ان کے معانی اور ان کے استعمال کا ذکر کیا جاتا ہے:
١) عليه السّلام (اس پر سلامتی نازل ہو): اس دعائیہ جملے کا اصلا استعمال انبیاء اور فرشتوں کے ساتھ خاص ہے، لہذا اس جملے کو صرف انبیاء اور فرشتوں کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، البتہ انبیاء کے تذکرے کے ضمن میں اگر صحابہ کرام یا دیگر حضرات کا ذکر آجائے تو مجموعی طور پر سب کے لیے "علیہم السلام" کہنا جائز ہے، البتہ روافض کا شعار ہے کہ وہ حضرت علیؓ اور دیگر اہل بیتؓ کو انبیاء کی طرح معصوم مان کر ان کے مبارک ناموں کے ساتھ "علیہ السلام" کہتے ہیں، لہذا اس عقیدے کے ساتھ غیر نبی کے لیے" علیہ السلام" کہنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
٢) رضي الله عنه (اللہ تعالٰی اس سے راضی ہو) : اس دعائیہ جملے کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے صحابہ کرامؓ ، تابعین اور اولیاء اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز ہے، لیکن چونکہ ہمارے عرف میں یہ جملہ صرف صحابہ کرامؓ کی ذات کے ساتھ خاص ہے، لہذا جہاں اشتباہ کا اندیشہ ہو تو ایسے موقع پر صرف صحابی کے لیے ہی یہ دعائیہ جملہ کہا جائے، کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کا مفہوم یہی ہوتا ہے۔
٣) رحمة اللہ علیہ یا رحمہ اللہ ( اللہ تعالٰی کی اس پر رحمت نازل ہو): یہ بھی دعائیہ جملہ ہے، جس کو اپنے معنی ومفہوم کے لحاظ سے صحابہ کرام، تابعین اور اولیاء اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز ہے، تاہم ہمارے عرف میں اس کا استعمال عام طور سے تابعین، اولیاء کرام اور عام فوت شدہ مؤمنین کے لیے ہوتا ہے۔
٤) کرَّمَ اللہ وجہَہ ( اللہ تعالٰی ان کے چہرے کو باعزت بنائے) : یہ دعائیہ جملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بولا جاتا ہے، علماء نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی بد باطنی اور خباثت کی وجہ سے سوّد اللہ وجہہ (بد دعا کا جملہ ہے) کہا کرتے تھے تو اہلِ سنت نے ان کے اس جملے کے جواب میں کرم اللہ وجہہ کہنا شروع کردیا، لہذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے دونوں جملوں (رضی اللہ عنہ اور کرم اللہ وجہہ ) کا استعمال کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (843/10)
وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوهرة التوحيد عن الإمام الجويني أنه في معنى الصلاة، فلا يستعمل في الغائب ولا يفرد به غير الأنبياء فلا يقال علي - عليه السلام - وسواء في هذا الأحياء والأموات إلا في الحاضر فيقال السلام أو سلام عليك أو عليكم وهذا مجمع عليه اه.
و فیہ أیضا: (485/10)
و یستحب الترضی للصحابۃ و الترحم للتابعین و من بعدہم من العلماء و العباد و سائر الاخیار و کذا یجوز عکسہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Matlab, Maani, Mafhoom, Istaimaal, In alfaz ka, Razi allah tala anhu, Alaihissalam, Alaihe salam, Rahmatullah alaih, Rahmat allah, Karam allah wajhu, Karam allahu wajhu,
Meaning and use of words, May Allah be pleased with him, Peace be Upon Him, Blessing on him, Salutations on him, May his face be enlightened