عنوان: دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا اور جمع بین الصلاتین والی حدیث کا جواب(3473-No)

سوال: حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز کو مدینہ میں کسی خوف اور سفر کے بغیر جمع کر کے پڑھا۔ ابو زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے (ابن عباسؓ کے شاگرد) سعید سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے بھی یہی سوال حضرت ابن عباسؓ سے کیا تھا تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے چاہا کہ اپنی امت کے کسی فرد کو تنگی و دشواری میں نہ ڈالیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:705) حضرت! اس حدیث کی روشنی میں کیا ہم دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کر سکتے ہیں؟

جواب: ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑھنا فرض ہے، نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے،قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے :اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا(النساء، آیت نمبر:۱۰۳) ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہرنماز کی ابتدا اور اس کے ختم ہونے کا وقت مقرر ہے، لہذا دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے، بلکہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں بلا عذر پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے بغیر عذر کے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا۔(سنن ترمذي، حدیث نمبر:188)
لہذا معلوم ہوا کہ دو وقتوں کی نماز کو ایک ہی وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ سفر وغیرہ میں ایک نماز اپنے وقت کے آخر میں اور دوسری نماز اپنے وقت کے شروع میں پڑھی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔
اب رہی وہ احادیث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے کا ذکر ہے تو اس کے دو جواب ہیں:
ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآن مجید کی اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات مبارکہ کے متعارض ہے، جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس مذکورہ بالا حدیث (سوال میں ذکر کردہ روایت ابن عباسؓ) میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ آیت مبارکہ قطعی الثبوت اور قطعی الدلالة ہے، جبکہ سوال میں ذکر کردہ روایت خبر واحد ظنی الثبوت اور ظنی الدلالة ہے جو کہ آیت مبارکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ عذر کے وقت ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر بھی پڑھ لی جائے، اسی طرح مغرب اور عشاء میں بھی کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں ہیں۔ آپ ﷺ نے دونمازوں کو اس طرح صورتاًجمع فرمایا تھا، جیسا کہ مندرجہ ذیل تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے،پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓبھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے، مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے، پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے، دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے)۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:1109)
اس روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر ؓ نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے تو حضرت ابن عمرؓ کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔ خود حافظ ابن حجرؒ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس روایت میں صورتا جمع کرنا مراد ہے۔
عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ دو نمازوں کے سوا میں نے نبی کریم ﷺ کو اور کوئی نماز بغیر وقت نہیں پڑھتے دیکھا، آپ ﷺ نے (مزدلفہ میں) مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں اور فجر کی نماز بھی اس دن (مزدلفہ میں) معمول کے وقت سے پہلے ادا کی۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:1682)
ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، چنانچہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں رہتا ہے اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ میں تعارض لازم آتا ہے، اس لیے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا، تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو اور ان میں باہم تضاد اور ٹکراؤ نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (381/1- 382، ط: سعید)
''(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔
(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.
'' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .
(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 15764 Jan 29, 2020
Namazon ko jama karna, Doo namazon ko jama karna, namazon ko jama kar key padhna, parhna, jama bain us salat, jama bain al salatin, hadees ka baab, hadith, Offering two prayers together, Performing two prayers together, Answer to the hadeeth about the combination of prayers, hadith, hadees

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.