عنوان: والد کے ساتھ مشترکہ فیملی سسٹم میں رہنے والی اولاد کا حکم، نیز بڑے بیٹے کا گھر کے نظام کو چلانے اور اس کے اختیارات کا حکم (3474-No)

سوال: السلام علیکم, مفتی صاحب !ظہور احمد نے اپنے گھر کا سارا کاروبار خود سنبھالا ہوا ہے۔ (یاد رہے کہ والدین اور بہن بھائی سب اس کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور تمام جائیداد کے مالک والد صاحب ہیں) اس تناظر میں پوچھنا یہ ہے کہ کاروبار کے سلسلے میں ظہور احمد کا اندرون ملک و بیرون ملک سفر ہوتا رہتا ہے اور مہمانوں، ہوٹلوں وغیرہ کی مد میں اچھا خاصا خرچہ اس مشترک جائیداد سے ہی ہوتا ہے، تو کیا ظہور احمد کو کھلا خرچ کرنے کی اجازت ہے یا شرعا کوئی حد مقرر ہے؟
نیز کاروبار میں اسے قیمتی تحائف بھی ملتے ہیں، اور چونکہ مارکیٹ میں اس کی اچھی ساکھ ہے، تو لوگ اس کو کاروبار کے لیے الگ سے پیسے بھی دیتے ہیں، تو کیا یہ تحائف اور الگ سے کاروبار کے لیے دیئے گئے پیسے ظہور کی ذاتی ملکیت شمار ہوں گے یا ان پیسوں کو مشترک جائیداد میں شمار کیا جائے گا؟

جواب: واضح رہے جو اولاد اپنے والد کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہو، ان کا کھانا پینا ایک ساتھ ہو، اور ان کا ذریعہ معاش بھی ایک ہی ہو(یعنی والد کے ساتھ رہنے والے بیٹے، اپنے والد ہی کے ساتھ ان کے کاروبار اور کام میں ان کے مددگار و معاون ہوں)، تو ایسی صورت میں شرعا تمام اولاد والد کی خادم اور معاون تصور ہوتی ہے، پھر اگر والد صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کو تمام ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں، خود صرف سرپرستی فرماتے ہیں، تب بھی بڑا بیٹا جو بھی تصرف کرے گا اس کی حیثیت اپنے والد کے معاون اور وکیل کی ہوگی، لہذا جو لوگ بھی اس کو کاروبار کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں، تو وہ بیٹا اس کاروبار کا مالک نہیں بنے گا، بلکہ وہ اپنے والد کے وکیل کے طور پر ہی ہر معاملہ کرے گا۔
جہاں تک بات ہے تحائف اور ھدایا کی، تو اگر بڑے بیٹے کو جو تحائف اور ھدایا اس کی اپنی معرفت سے ملتے ہیں، وہ ان کو اپنے ذاتی استعمال میں رکھ سکتا ہے، لیکن اگر اس کو وہ تحفہ اس کے والد کے لیے ہی دیا گیا ہے، تو پھر اسے اپنے پاس رکھنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبی داود: (کتاب الإجارۃ، رقم الحدیث: 3530، 498/2، ط: دار الفکر)
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رجلاً أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰہ! إن لي مالاً وولدًا، وإن والدي یحتاج مالي۔ قال: ’’أنت ومالک لوالدک، إن أولادکم من أطیب کسبکم فکلوا من کسب أولادکم‘‘۔

شرح المجلۃ: (رقم المادۃ: 1398، 741/2)
"إذا عمل رجل في صنعۃ ہو وابنہ الذي في عیالہ فجمیع الکسب لذلک الرجل، وولدہ یعد معینا لہ، فیہ قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعۃ واحدۃ إذ لو کان لکل منہما صنعۃ یعمل فیہا وحدہ فربحہ لہ".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1322 Jan 30, 2020
Mushtarka, family system, rehnay wali aulad, awlad, aulad, baray baitay, ghar, kay, nizam, nizaam, chalanay, chalaane, ikhtiarat, ikhtiaraat, ikhtiaraat , baray bhai, Ruling on children living in a joint family system with the father and ruling on elder sons powers on running the household affairs, running the home affairs

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.