سوال:
مفتی صاحب ! بینک کے ڈیبٹ کاڑد سے خریداری کرنے پر کچھ ڈسکاؤنٹ ہوتا ہے، کیا اس سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آتا ہے یا اس سے اجتناب کرنا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ ڈیبٹ کارڈ (Debit Card) کے استعمال پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کے جائز اور ناجائز ہونے میں درج ذیل تفصیل ہے:
1۔ ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) ملتی ہے، اگر یہ رعایت بینک کی طرف سے ملتی ہو، تو اس صورت میں اس رعایت کا حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے، جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے، وہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔
2۔ اگر یہ رعایت اس ادارے کی جانب سے ہو، جہاں سے کچھ خریدا گیا ہے یا وہاں کھانا کھایا گیا ہے، تو یہ ڈسکاؤنٹ اس ادارے کی طرف سے تبرع و احسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔
3۔ اگر رعایت دونوں کی طرف سے ہو(بینک یا اور وہ ادارہ جہاں سے خریداری کی گئی ہے) تو بینک کی طرف سے دی جانے والی رعایت درست نہ ہوگی۔
4۔ رعایت نہ تو بینک کی طرف سے ہو اور نہ ہی جس ادارے سے خریداری ہوئی ہے، اس کی طرف سے ہو، بلکہ ڈیبٹ کارڈ بنانے والے ادارے کی طرف سے رعایت ہو، تو اگر اس ادارے کے تمام یا اکثر معاملات جائز ہوں اور ان کی آمدن کل یا کم از کم اکثر حلال ہو، تو اس صورت میں ڈسکاؤنٹ سے مستفید ہونے کی اجازت ہوگی۔
5۔ اگر معلوم نہ ہوکہ یہ رعایت کس کی طرف سے ہے؟ تو پھر اجتناب کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ یہ حکم سودی بینکوں کے ڈیبٹ کارڈ کے متعلق ہے، نیز سودی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈرز کا بھی یہی حکم ہے، جو اوپر مذکور ہے۔
باقی غیر سودی بینکوں کے معاملات کی نگرانی مستند مفتی حضرات کر رہے ہوتے ہیں اور انہوں نے اس ڈسکاؤنٹ کے استعمال کے جواز کے لئے شرعی اصولوں کی پاسداری کی ہوتی ہے، لہذا ان علمائے کرام پر اعتماد ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈرز اور ڈیبٹ کارڈ ہولڈرز دونوں کے لیے، غیر سودی بینکوں کی طرف سے ملنے والے ڈسکاؤنٹ کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الآیۃ: 2)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo
تفسیر القرطبی: (46/6، ط: دار الکتب المصریة)
الثالثة عشرة- قوله تعالى: (وتعاونوا على البر والتقوى) قال الأخفش: هو مقطوع من أول الكلام، وهو أمر لجميع الخلق بالتعاون على البر والتقوى، أي ليعن بعضكم بعضا، وتحاثوا على ما أمر الله تعالى واعملوا به، وانتهوا عما نهى الله عنه وامتنعوا منه، وهذا موافق لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (الدال على الخير كفاعله).
مصنف ابن ابی شیبة: (327/4، ط: مکتبة الرشد)
حدثنا خالد الاحمر، عن حجاج، عن عطاء، قال: کانو یکرھون کل قرض جر منفعۃ۔
المحیط البرھانی: (394/5، ط: دار الکتب العلمیة)
ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصرف عن أبي حنيفة رضي الله عنه: أنه كان يكره كل قرض فيه جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد۔
عمدة القاری شرح صحیح البخاری: (106/12، ط: دار احیاء التراث العربی)
رواه أبو داود في (سننه) من رواية خالد بن أبي عمران عن القاسم عن أبي أمامة عن النبي، صلى الله عليه وسلم، قال: من شفع لأخيه شفاعة فأهدى له هدية عليها، فقد أتى بابا عظيما من أبواب الربا، وهذا معنى ما ورد: كل قرض جر منفعة فهو ربا۔
تنقیح الفتاوی الحامدیة: (کتاب البیوع، 500/1، ط: قدیمی)
الدیون تقضیٰ بأمثالها۔
فقہ البیوع: (440/1)
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143909201914
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی