عنوان: غیر رہائشی مدرسہ میں زکوۃ دینے کا حکم(3519-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا کسی ایسے مدرسے میں زکوة دے سکتے ہیں، جہاں پیسے کی تو اشد ضرورت ہو، لیکن رہائشی طلباء نہ ہوں؟

جواب: واضح رہے کہ زکوۃ کا مصرف مستحق زکوۃ افراد ہیں، محض طالب علم ہونا یا مدرسے میں قیام کا انتظام ہونا استحقاقِ زکوۃ کے لیے کافی نہیں ہے، اصل بنیاد طلباء کا مستحق ہونا ہے، لہٰذا غیر رہائشی طالب علم بھی مستحقِ زکوۃ ہوسکتا ہے، لہذا اگر مذکورہ مدرسہ میں مستحق طلباء زیر تعلیم ہوں، یعنی وہ صاحبِ نصاب نہ ہوں، اور مدرسہ کی انتظامیہ زکوۃ کی رقم طلباء کی ضروریات مثلاً کھانے، پینے، کپڑے، وظیفے وغیرہ میں خرچ کرتی ہو، تو اس مدرسہ کی انتظامیہ فقیر طلباء کی طرف سے وکیل بن کر زکوٰۃ وصول کرسکتی ہے، اور اگر مدرسہ کے اندر اس طرح کا یعنی فقیر طلباء پر خرچ کرنے کا نظام موجود نہ ہو، تو انتظامیہ کو زکوٰۃ وصول کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے، اسی طرح طلباء کے لئے لی ہوئی رقم سے مدرسے کے دیگر اخراجات مثلا تنخواہ، تعمیر اور بل ادا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
البتہ اس قسم کے غیر رہائشی مدرسہ میں اگر کوئی زکوۃ کی رقم لگانا چاہے، تو اس کے تین طریقے ممکن ہیں، جو ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
(1) مدرسہ کا مہتمم، استاد، طالب علم یا کوئی اور شخص جو فقیر یعنی صاحب نصاب نہ ہو، اسے زکوۃ کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اپنی رضا و خوشی سے وہ رقم مدرسہ پر خرچ کر دے۔
(2) کوئی آدمی قرض لے کر اس مدرسہ کی ضروریات پر خرچ کردے، اور وہ قرض اتنا ہو جس سے وہ آدمی مستحق زکوۃ بن جائے، پھر زکوۃ کی رقم اس قرض دار کو مالک بنا کر دے دی جائے۔
(3) مدرسہ کے بالغ طلباء، جو فقیر یعنی صاحب نصاب نہ ہوں، اگر وہ اپنی رضا و خوشی سے مدرسہ کی انتظامیہ کو زکوۃ وصول کرنے کا وکیل بنا دیں، اور زکوۃ وصول ہونے کے بعد اس بات کا اختیار دے دیں کہ وہ اپنی صوابدید پر مذکورہ مدرسہ میں جہاں چاہیں، اس رقم کو خرچ کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان تینوں صورتوں کے اختیار کرنے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی، ورنہ مذکورہ مدرسہ میں براہ راست زکوۃ کی رقم لگانے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الزکاۃ، 188/1، ط: رشیدیہ)
لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".

الدر المختار: (291/3، ط: زکریا)
ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً ... فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ․

و فیہ ایضا: (باب المصرف، 304/3، ط: زکریا)
وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیوناً، أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لایخص کلا، أو لا یفضل بعد دینہ نصاب فلا یکرہ۔

البحر الرائق: (باب المصرف، 242/2، ط: سعید)
قولہ: والمدیون أطلقہ کالقدوري، وقیدہ في الکافي بأن لا یملک نصابا فاضلاً عن دینہ؛ لأنہ المراد بالغارم في الآیۃ، وہو في اللغۃ: من علیہ دین ولا یجد قضاء کما ذکرہ القُتَیبي … وفي الفتاویٰ الظہیریۃ: الدفع إلی من علیہ الدین أولی من الدفع إلی الفقیر۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3225 Feb 12, 2020
Ghair rihaishi, Gheir, rehaishi, madrassah, madrassa, zakat, dainay, daine, hukm, hukam, Ruling on paying Zakat in a non-residential madrassa, Day scholars madrassa

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.