resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ماہ رجب المرجب کے متعلق فضائل و مسائل اور خرافات(3541-No)

سوال: مفتی صاحب ! رجب کے مہینے کے متعلق فضائل، مسائل اور اس میں جو خرافات ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمادیں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: رجب "ترجیب" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی تعظیم کرنا ہیں، چونکہ اس مہینے کو اہل عرب شھر اللہ( اللہ کا مہینہ) کہتے تھے اور اس کی تعظیم کرتے تھے، اس وجہ سے اس مہینے کا نام رجب رکھ دیا گیا۔
(غیاث الغات: ص، ٣٢٣، مکتبہ، قدیمی کتب خانہ)
فضائل:
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ.
(التوبة، الایہ36)
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب( یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے، جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا،ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔
(آسان ترجمہ قرآن: ص،۴١۵)
ان چار حرمت والے مہینوں سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ہیں۔
(البخاری، ص ١٨١، حدیث نمبر:۴٦٦٢، مکتبہ لدھیانوی)
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تمام انبیاء علیھم السلام کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔
ان میں کوئی گناہ کرے، تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔
(معارف القرآن: ج،۴،ص،٣٧٠، مکتبہ معارف القرآن)
نیز منھا اربعة حرم کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ہے، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، اور دوسرا اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے۔
ان میں پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہو گیا، مگر دوسرا حکم ( احترام و ادب ) اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں باقی ہے۔
(معارف القرآن: ج،۴ ص،٣٧٢، مکتبہ معارف القرآن)

ماہ رجب کے مسائل:
ماہ رجب کے حوالے سے لوگ مختلف قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔
1۔ شب معراج:
ستائیس رجب کی رات کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شب معراج ہے، اور اس رات کو بھی اس طرح گزارنا چاہیے، جس طرح شب قدر گزاری جاتی ہے، حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ستائیس رجب کے بارے میں یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ وہی رات ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیونکہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، جبکہ بعض روایتوں میں رجب کا اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے، لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ستائیس رجب ہی کو معراج کیلئے تشریف لے گئے تھے، تو بے شک وہ خاص رات واقعی بڑی فضیلت والی تھی، لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ستائیس رجب کی رات کو حاصل نہیں۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ واقعہ معراج سنہ پانچ نبوی میں پیش آیا، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد اٹھارہ سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما رہے، لیکن ان اٹھارہ سالوں کے درمیان کہیں یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو، نہ تو آپ صلی الله عليه وسلم کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے اور نہ ہی آپ صلی الله عليه وسلم کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
لہذا جو چیز حضور صلی الله عليه وسلم نے نہیں کی اور نہ آپ صلی الله عليه وسلم کے جانثاران و وفادار اصحاب کرام نے کی، اس کو دین کا حصہ قرار دینا یا اس کو سنت قرار دینا یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے، چنانچہ اس رات میں عبادت کیلئے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے۔
(اصلاحی خطبات: ج، ١، ص، ٦٠ تا٦٢)
2۔ رجب کا روزہ:
بعض لوگ ستائیس رجب کے روزے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اسے نہایت فضیلت والا روزہ خیال کرتے ہیں، حالانکہ اس روزے کی فضیلت کے بارے میں صحیح سند سے کوئی ایک روایت بھی ثابت نہیں۔
دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اس باب میں ملاحظہ ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اپنے دور خلافت میں پتا چلا کہ ستائیس رجب کا خاص اہتمام کرکے لوگ روزے رکھ رہے ہیں، تو فوراً گھر سے نکل پڑے اور ایک ایک شخص کو جاکر زبردستی فرمایا: میرے سامنے کھاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ تمھارا روزہ نہیں ہے۔
عن خرشة بن الحر قال: "رأيت عمر بن الخطاب يضرب أكف الرجال في صوم رجب حتى يضعوها في الطعام، فيقول: رجب وما رجب! إنما رجب شهر كانت تعظمه الجاهلية فلما جاء الإسلام ترك". "ش طس".
(کنز العمال، رقم الحدیث 24575، ج8، ص298، کتاب الصوم، صوم رجب، مکتبہ رحمانیہ)
آپ رضی اللہ عنہ نے یہ اہتمام اس لئے فرمایا، تاکہ بدعت کا سد باب ہو اور دین کے اندر اپنی طرف سے زیادتی نہ ہو، چنانچہ سیرت طیبہ اور تعامل صحابہ کی روشنی میں جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عام دنوں کی طرح اس دن بھی روزہ رکھنا چاہے، تو اسکی ممانعت نہیں، لیکن سنت، مستحب یا زیادہ اجر و ثواب کا موجب سمجھ کر اس دن روزہ رکھنا بدعت ہے۔
(اصلاحی خطبات: ج،١، ص، ٦٣ تا ٦۵)
3۔کونڈے:
ماہ رجب میں ایک رسم امام جعفر صادق کے کونڈوں کے نام سے مشہور ہے، در حقیقت یہ رسم صحابہ دشمن لوگوں کی ایجاد ہے، جس وقت کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا المناک سانحہ پیش آیا، تو دشمنوں نے اپنی دیرینہ خواہش پوری ہونے پر خاموشی سے مٹھائیاں تقسیم کی، ابتداءً اس خوشی کو مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی، پھر اس راز کے فاش ہونے کے خطرے کے پیش نظر اس رسم کو امام جعفر صادق کی طرف منسوب کردیا گیا، حالانکہ اصولی طور پر اس تاریخ کو حضرت امام جعفر صادق سے کوئی مناسبت نہیں ہے، اس لئے کہ بائیسویں رجب نہ حضرت جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی تاریخ پیدائش ہے اور نہ ہی تاریخ وفات، حضرت جعفر صادق کی ولادت آٹھ رمضان 80 ھجری یا 83 ھجری میں ہوئی اور وفات شوال 128ھجری میں ہوئی، ہاں بائیسویں رجب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ضرور ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لئے حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا گیا، ورنہ در حقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رسم سے بہت دور رہیں۔
(تاریخ کے ساتھ ساتھ: ص، ٢٦٧ تا ٢٦٨، مکتبہ ادارۃ المقصود)
خلاصہ یہ کہ رجب کا مہینہ نہایت برکت اور فضیلت والا مہینہ ہے، اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن کسی رات کی عبادت کو خاص کرنا یا کسی دن کے روزے کو خاص اہتمام کے ساتھ مسنون یا مستحب سمجھ کر رکھنا شرعاً بدعت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبۃ، الایۃ: 36)
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ۔۔۔۔الخ

کنز العمال: (کتاب الصوم، رقم الحدیث: 24575، 298/8، ط: مکتبہ رحمانیہ)
عن خرشة بن الحر قال: "رأيت عمر بن الخطاب يضرب أكف الرجال في صوم رجب حتى يضعوها في الطعام، فيقول: رجب وما رجب! إنما رجب شهر كانت تعظمه الجاهلية فلما جاء الإسلام ترك". "ش طس".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Maah, Mah, Rajab, Rajb, Almujarrab, kay, mutalliq, muta'aliq, fazail, masail, fazail o masail, fazail-o-masail, kharafaat, kharaafaat, Virtues, issues and superstitions about the month of Rajab al-Marjab, konday, koonday, 22 rajab, Jafar Saadiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Miscellaneous