عنوان: حضرت خضر علیہ السلام کی شخصیت سے متعلق سوالات کے جوابات (3611-No)

سوال: کیا حضرت خضرعلیہ السلام نبی تھے اور فی الوقت وہ حیات ہیں یا انتقال فرما گئے ہیں؟ مزید اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ کیا ان کی حیات و وفات میں علماء کا اختلاف ہے، اگر ہے تو راجح قول کیا ہے اور کیا بخاری شریف میں ان کے حوالے سے ایسی کوئی روایت موجود ہے کہ انہوں نے آب حیات پیا ہے؟

جواب: حضرت خضر علیہ السلام کى شخصیت سے متعلق جو سوالات پوچھے گئے ہیں، قرآن کریم میں ان کے متعلق مذکور قصے میں ان سوالات کے جوابات کى کوئى وضاحت موجود نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم میں تو ان کا نام بھى مذکور نہیں ہے، ان کے تعارف میں صرف یہ فرمایا گیا ہے: "ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ جس کو ہم نے اپنى خصوصى رحمت سے نوازا تھا اور خاص اپنى طرف سے ایک علم سکھایا تھا" (سورۃ الکہف: 65)۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دلچسپ قصے کو بیان فرما کر جو قرآنى ہدایات مقصود ہیں، وہ اصل میں پوچھنے کے سوالات ہیں، بہر کیف! احادیث مبارکہ میں ان کے نام کى تعیین اور اس کى وجہ تسمیہ وغیرہ اور اس واقعہ کى بہت سى جزوى تفصیلات بیان فرمائى گئى ہیں، نیز محدثین و مفسرین نے ان کے نبى یا ولی ہونے اور ان کے اب تک بقید حیات ہونے سے متعلق جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں، ان کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
1) قرآن کریم کى سورہ کہف میں حضرت موسى علیہ السلام کے ساتھ جس شخصیت کا قصہ بیان کیا گیا ہے، صحیح احادیث مبارکہ میں ہے کہ ان کا نام خضر (علیہ السلام) ہے، خِضر کے معنى ہیں: سبزہ زار، سبز مقام۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "خضر کو خضر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ (حضرت خضر علیہ السلام) ایک مرتبہ خشک سفید زمین پر بیٹھے تھے تو جب وہ اس سے اٹھے تو وہ زمین یکایک سرسبز ہو کر لہلہانے لگى"۔ (صحیح بخارى: حدیث نمبر: 3402)
2) حضرت خضر علیہ السلام کے اللہ تعالى کے ولى يا نبى ہونے کے متعلق متقدمین اہل علم محدثین و مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں سے جمہور علماء کا موقف یہ کہ حضرت خضر علیہ السلام اللہ تعالى کے نبى تھے، جمہور علماء کے اس موقف کو حضرت مفتى محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنى تفسیر "معارف القرآن" جلد 5 ص 612 میں نقل فرمایا ہے: "قران کریم نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ خضر علیہ السلام کوئی پیغمبر تھے یا اولیاء اللہ میں سے کوئی فرد تھے لیکن جمہور علماء کے نزدیک ان کا نبی ہونا خود قرآن کریم میں ذکر کیے ہوئے واقعات سے ثابت ہے، کیونکہ خضر علیہ السلام سے اس سفر میں جتنے واقعات ثابت ہیں، ان میں سے بعض تو قطعی طور پر خلاف شرع ہیں اور حکمِ شریعت سے کوئی استثنی بجز وحی الہی کے ہو نہیں سکتا جو نبی اور پیغمبر ہی کے ساتھ مخصوص ہے، ولی کو بھی کشف یا الہام سے کچھ چیزیں معلوم ہو سکتی ہیں، مگر وہ کوئی حجت نہیں ہوتیں، ان کی بنا پر ظاہر شریعت کے کسی حکم کو بدلا نہیں جا سکتا، اس لیے یہ متعین ہو جاتا ہے کہ خضر علیہ السلام اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے، ان کو بذریعہ وحی الہی بعض خاص احکام وہ دیے گئے تھے جو ظاہر ِشریعت کے خلاف تھے، انہوں نے جو کچھ کیا اس استثنائى حکم کے ماتحت کیا، خود ان کی طرف سے اس کا اظہار بھی قران کریم کے اس جملے میں ہو گیا (میں نے جو کچھ کیا اپنی طرف سے نہیں کیا، بلکہ امر ِالہی سے کیا ہے)۔
خلاصہ یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام بھی ایک نبی اور پیغمبر ہیں، مگر ان کو کچھ تکوینی خدمتیں من جانب اللہ سپرد کی گئی تھیں، انہی کا علم دیا گیا تھا اور حضرت موسی علیہ السلام کو اس کی اطلاع نہ تھی، اسی لیے اس پر اعتراض کیا، تفسیر قرطبی، بحر محیط ابو حیان اور اکثر تفاسیر میں یہ مضمون بعنوانات مختلفہ مذکور ہے"۔
3) حضرت خضر علیہ السلام کى حیات سے متعلق بھى اہل علم کا اختلاف ہے، محدثین کے ایک طبقے کا موقف یہ کہ حضرت خضر علیہ السلام اب تک حیات نہیں ہیں، جبکہ جمہور علماء وصلحاء کا موقف یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اب تک حیات ہیں، ذیل میں محققین اہل علم کے اہم اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں:
حکیم الأمت حضرت مولانا اشرف على تھانوى نور اللہ مرقدہ نے "امداد الفتاوى" جلد 4 ص 541، مسائل شتى، طبع: مکتبہ دار العلوم کراچى، میں تحریر فرماتے ہیں: "حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کا زندہ رہنا جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تک ثابت ہے، چنانچہ بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس تشریف لائے اور تعزیت فرمائی اور حضر ت ابوبکر صدیق و حضرت علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ اور اب تک زندہ ہونے پر تمام اہلِ باطن و صلحاء کا اتفاق ہے اور ہمیشہ ایسے لوگوں سے ملاقات کرتے رہے اور کرتے ہیں۔۔۔ اور اکثر بزرگوں سے حکایات بمنزلۂ متواتر ان کی زندگی کے منقول و مشہور ہیں۔ فقط واللہ تعالی اعلم"۔
فقیہ الأمت حضرت مفتى محمود حسن گنگوہى نورہ اللہ مرقدہ "فتاوى محمودیہ" جلد 1 ص 442، طبع: ادارۃ الفاروق، کراچى میں تحریر فرماتے ہیں:"جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ خضر علیہ الصلاة والسلام زندہ ہیں، ہاں بعض اس کے قائل ہیں کہ انتقال کر چکے ہیں۔۔۔۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى وفات پر تعزیت کے لیے تشریف لائے اور صحابہؓ کے مجمع میں تعزیت کى ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ خضر علیہ السلام ہیں كذا في جمع الفوائد"۔
وأیضا: جلد 1 ص 445: "محدثین کرام عموماً حضرت خضر علیہ الصلاۃ والسلام کى حیات کے قائل نہیں، صوفیائے عظام قائل ہیں"۔
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ "معارف القرآن" جلد 5 ص 626 میں تحریر فرماتے ہیں: "حضرت خضر علیہ السلام کی موت و حیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا علمی مسئلہ متعلق نہیں ہے، اسی لیے قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں کى گئى ہے، اس لیے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کى بھى ضرورت نہیں، نہ کسى ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضرورى ہے"۔
3) حضرت خضر علیہ السلام کے آب حیات نوش فرمانے کا ذکر نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اور نہ ہى صحیح بخارى میں مذکور ہے۔ بعض تاریخی روایات میں ان کا ذکر ملتا ہے، لیکن وہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (كتاب أحاديث الأنبياء، حديث الخضر مع موسى عليه السلام، رقم الحديث: 3400، 154/4، ط : دار طوق النجاة)
عن ابن عباس :أنه تمارى هو والحر بن قيس الفزاري في صاحب موسى قال ابن عباس: هو خضر فمر بهما أبي بن كعب فدعاه ابن عباس فقال إني تماريت أنا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سأل السبيل إلى لقيه هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه قال: نعم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل فقال: هل تعلم أحدا أعلم منك قال: لا فأوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل موسى السبيل إليه فجعل له الحوت آية وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان يتبع الحوت في البحر فقال لموسى فتاه: (أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره( فقال موسى: )ذلك ما كنا نبغ فارتدا على آثارهما قصصا(فوجدا خضرا فكان من شأنهما الذي قص الله في كتابه".

صحيح البخاري: (كتاب أحاديث الأنبياء، حديث الخضر مع موسى عليهما السلام، رقم الحديث: 3402، 156/4، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :"إنما سمي الخضر أنه جلس على فروة بيضاء فإذا هي تهتز من خلفه خضراء".
صحيح البخاري: (كتاب العلم/ باب ما ذكر في ذهاب موسى صلى الله عليه في البحر إلى الخضر، 1/ 26 ، رقم الحديث (74)، ط: دار طوق النجاة)
عن ابن شهاب حدث أن عبيد الله بن عبد الله أخبره عن ابن عباس :أنه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، قال ابن عباس: هو خضر. فمر بهما أبي بن كعب، فدعاه ابن عباس فقال: إني تماريت أنا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سأل موسى السبيل إلى لقيه، هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل، جاءه رجل فقال: هل تعلم أحدا أعلم منك؟ قال موسى: لا. فأوحى الله إلى موسى: ‌بلى، ‌عبدنا ‌خضر، فسأل موسى السبيل إليه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع، فإنك ستلقاه، وكان يتبع أثر الحوت في البحر، فقال لموسى فتاه: (أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره) (قال ذلك ما كنا نبغي فارتدا على آثارهما قصصا) فوجدا خضرا، فكان من شأنهما الذي قص الله عز وجل في كتابه".

فتح الباري: (434/6، ط: المكتبة السلفية)
"وحكى ابن عطية البغوي عن أكثر أهل العلم أنه نبي، ثم اختلفوا هل هو رسول أم لا؟ وقالت طائفة منهم القشيري هو ولي. وقال الطبري في تاريخه: كان الخضر في أيام أفريدون في قول عامة علماء الكتاب الأول، وكان على مقدمة ذي القرنين الأكبر. وأخرج النقاش أخبارا كثيرة تدل على بقائه لا تقوم بشيء منها حجة، قاله ابن عطية، قال: ولو كان باقيا لكان له في ابتداء الإسلام ظهور، ولم يثبت شيء من ذلك. وقال الثعلبي في تفسيره: هو معمر على جميع الأقوال، محجوب عن الأبصار. قال: وقد قيل إنه لا يموت إلا في آخر الزمان حين يرفع القرآن. وقال القرطبي: هو نبي عند الجمهور والآية تشهد بذلك، لأن النبي صلى الله عليه وسلم لا يتعلم ممن هو دونه، ولأن الحكم بالباطن لا يطلع عليه إلا الأنبياء. وقال ابن الصلاح: هو حي عند جمهور العلماء والعامة معهم في ذلك، وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين. وتبعه النووي وزاد أن ذلك متفق عليه بين الصوفية وأهل الصلاح، وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به أكثر من أن تحصر انتهى".

عمدة القاري: (60/2، ط: دار الفكر)
"‌والصحيح ‌أنه ‌نبي، وجزم به جماعة. وقال الثعلبي: هو نبي على جميع الأقوال معمر محجوب عن الأبصار، وصححه ابن الجوزي أيضا في كتابه، لقوله تعالى حكاية عنه: {وما فعلته عن امري} (الكهف: 82) فدل على أنه نبي أوحي إليه، ولأنه كان أعلم من موسى في علم مخصوص، ويبعد أن يكون ولي أعلم من نبي وإن كان يحتمل أن يكون أوحي إلى نبي في ذلك العصر يأمر الخضر بذلك، ولأنه أقدم على قتل ذلك الغلام، وما ذلك إلا للوحي إليه في ذلك. لأن الولي لا يجوز له الإقدام على قتل النفس بمجرد ما يلقى في خلده، لأن خاطره ليس بواجب العصمة".

عمدة القاري: (299/15، ط: دار الفكر)
"النوع ‌الثالث ‌في ‌نبوته، فالجمهور على أنه نبي، وهو الصحيح، لأن أشياء في قصته تدل على نبوته".

شرح صحيح مسلم للنووي: (135/15، ط: دار إحياء التراث العربي)
"جمهور العلماء على أنه حي موجود بين أظهرنا وذلك متفق عليه عند الصوفية وأهل الصلاح والمعرفة ،وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به والأخذ عنه ،وسؤاله وجوابه ،ووجوده في المواضع الشريفة ،ومواطن الخير أكثر من أن يحصر وأشهر من أن يستر .وقال الشيخ ابو عمر بن الصلاح :هو حي عند جماهير العلماء والصالحين ،والعامة معهم في ذلك. قال :وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين".

فتح الباری: (قوله باب حديث الخضر مع موسى عليهما السلام، 439/6، ط: دار المعرفة)
"و قال بن الصلاح هو حي عند جمهور العلماء والعامة معهم في ذلك وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين وتبعه النووي وزاد أن ذلك متفق عليه بين الصوفية وأهل الصلاح وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به أكثر من أن تحصر انتهى".


فتح الباري: (434/6، ط: المكتبة السلفية)
وروى خيثمة بن سليمان من طريق جعفر الصادق عن أبيه أن ذا القرنين كان له صديق من الملائكة، فطلب منه أن يدله على شيء يطول به عمره، فدله ‌على ‌عين ‌الحياة وهي داخل الظلمة، فسار إليها والخضر على مقدمته فظفر بها الخضر ولم يظفر بها ذو القرنين. وروي عن مكحول، عن كعب الأحبار قال: أربعة من الأنبياء أحياء أمان لأهل الأرض: اثنان في الأرض الخضر وإلياس، واثنان في السماء إدريس وعيسى".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 705 Feb 25, 2020
Kia, Khizar, Alaih Salam, zindah, hain, AS, A.S, alaihissalam, alaihe salam, Is khizar alive, Still, Hazrat Khizar, Hazrat, Khizar

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.