عنوان:
خلع سے متعلق چند سوالات کے جوابات(3666-No)
سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک شخص (جس نے مہر کی ادائیگی نہیں کی تھی) کی بیوی مستقل طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی، جب شوہر طلاق دینے کے لیے تیار ہوا، تو بیوی نے خلع کا مطالبہ کر دیا، جسے شوہر نے بلا معاوضہ قبول کر لیا، اس ضمن میں پوچھنا یہ ہے کہ بیوی ان پڑھ ہے، سارا مضمون شوہر نے لکھا اور بیوی نے اس پر اپنے دستخط کر دیئے، اور اس پر شوہر نے منظور ہے لکھ کر اپنے دستخط کر دیئے، تو کیا اس سے خلع منعقد ہو گیا؟
مزید یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ کیا خلع میں ضروری ہے کہ کچھ بدلہ میں دیا بھی جائے یا باہمی رضامندی سے بغیر عوض کے بھی خلع ثابت ہو جاتا ہے؟
اور کیا خلع کی عدت کے دوران عورت کا نان نفقہ شوہر کے ذمہ ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت میں اصلاً طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا ہے ، لیکن اگر زوجین میں نبھاؤ کی کوئی شکل نہ رہے اور شوہر بغیر عوض طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو عورت کے لئے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ خلع کی پیش کش کرکے اپنے کو آزاد کرالے، لہٰذا شرعاً خلع کے لئے میاں بیوی دونوں کا رضامند ہونا لازم ہے، نہ بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر اس کو خلع لینے پر مجبور کرسکتا ہے، اور نہ شوہر کی رضامندی کے بغیر عورت خلع حاصل کرسکتی ہے.
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات ذکر کیے جاتے ہیں:
١.خلع ایک ایسا معاملہ ہے، جو زوجین کی باہمی رضامندی پر موقوف ہے اور خلع مال کےذریعے بھی ہوسکتا ہے اور بغیر مال کے بھی، خصوصاً اگر ظلم اور زیادتی شوہر کی طرف سے ہو تو اس خلع کے بدلے مال لینا مکروہ ہے -
چونکہ خلع کا عقد عورت کے حق میں معاوضہ (یعنی مال کے دینے والا عقد) ہے، لہذا اگر اس نے مال کا ذکر کیے بغیر شوہر سے مطالبہ کیا اور شوہر نے مطلقاً یہ الفاظ بولے ہوں ”میں نے تجھے خلع دیا“ تو اس صورت میں اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہو تو ایک طلاقِ بائن (بغیر کسی مال کے) واقع ہوجائے گی اور اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو کچھ واقع نہ ہوگا۔
٢. خلع کو شریعت میں طلاقِ بائن شمار کیا جاتا ہے اور عدت گزر جانے تک عورت کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، البتہ اگر عدت کا نفقہ اور رہائش کے خرچ کو ساقط کرنے کی صراحت کردی گئی ہو تو نفقہ اور رہائش کا خرچ ساقط ہوجائے گا۔
٣.جی ہاں! اگر میاں بیوی نے رضامندی سے خلع نامہ پر دستخط کئے ہیں تو خلع ہوگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 229)
وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ، وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَo
الدر المختار مع رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
باب الخلع: وأما ركنه فهو كما في البدائع إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول۔
و فیہ ایضا: (444/3، ط: دار الفکر)
(قوله: والخلع من الكنايات) لأنه يحتمل الانخلاع عن اللباس، أو الخيرات، أو عن النكاح عناية، ومثله المبارأة (قوله: فيعتبر فيه ما يعتبر فيها) ويقع به تطليقة بائنة إلا إن نوى ثلاثا فتكون ثلاثا، وإن نوى ثنتين كانت واحدة بائنة كما في الحاكم
و فيہ ایضاً: (453/3، ط: دار الفکر)
(إلا نفقة العدة) وسكناها فلا يسقطان (إلا إذا نص عليها) فتسقط النفقة لا السكنى.۔
الفتاوی الھندیۃ: (488/1، ط: دار الفکر)
اذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز۔
و فیھا ایضا: (492/1، ط: دار الفکر)
لو قال لها: قد خلعتك ونوى الطلاق فهي واحدة۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Khula, khulah, say, mutaaliq, mutalliq, chand, chund, sawalaat, sawaalat, kay, jawabaat, jawaabat,
Answers to some questions related to khula, divorce, application for divorce