عنوان:
اسلام میں غلامی کا مسئلہ(3734-No)
سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے اور اس پر ملنے والے اجر کے بارے میں تو روایات موجود ہیں، لیکن کیا غلام بنانے اور غلاموں کی خرید و فروخت کی ممانعت کے بارے میں کوئی روایت موجود ہے؟
جواب: غلامی کیا ہوتی ہے، آج کے دور میں غلام موجود ہیں یا نہیں اور غلامی کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ یہ آج کی دنیا کے نازک موضوعات میں سے ہے۔ اسلام پر جو اعتراضات ہوتے ہیں، ان میں سے ایک اعتراض غلامی کے حوالے سے بھی ہے۔
آج کے زمانے میں جب غلامی کا لفظ بولا جاتا ہے، تو عام ذہن میں غلاموں کے بارے میں فورا جو تصور پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ غلام وہ ہوتے ہیں، جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوں اور ان پر کوڑے برسائے جارہے ہوں اور پھر ان بے چاروں کو کمر سیدھی رکھنے کو غذا دی جاتی ہو اور رہنے کے لیے جھونپڑی ہو، جن کا معاشرے اور سماج سے کوئی تعلق نہ ہو۔
جبکہ اسلام کا اس تصور غلامی سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔
لہذا اس سلسلے میں محققین اسلام کی طرف سے جو جوابات دیے جاتے ہے، ذیل میں ان کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے۔
غلامی کیا ہے؟
جاننا چاہیے کسی کی جسمانی طاقت کو اپنے آرام و آسائش یا راحت ومسرت کے لیے استعمال کرنے کی خواہش ہی غلامی کی بنیاد ہے۔ یہ خواہش اتنی ہی قدیم ہے، جتنی فطرت انسانی، نیز اس کے آثار ہر زمانے اور ہر قوم میں پائے گئے ہیں، اسلام سے قبل عرب کی معاشرت میں بھی غلامی کی رائج شکلیں موجود تھیں اور تین طرح کے غلام ہوا کرتے تھے۔
١- وہ آزاد آدمی جس کو طاقتور شخص اپنے تسلط میں لا کر کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دے۔
٢- وہ لوگ جو نسل در نسل غلام چلے آرہے ہوں۔
٣- جنگی قیدی
پہلی بات یہ ہے کہ غلامی مسلمانوں نے رائج نہیں کی، اس لیے کہ مسلمانوں سے پہلے یہ طریقہ دنیا میں چلا رائج آرہا تھا۔ غلامی کے ساتھ جیسے باقی قوموں کو واسطہ پڑا، اسی طرح مسلمانوں کو بھی اس کے ساتھ واسطہ پڑا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غلامی کے اس رواج کے ساتھ سب سے اچھا برتاؤ کس نے کیا۔
اسلام نے غلام بنانے کا اگرچہ حکم نہیں دیا لیکن غلامی کے تمام رائج طریقوں کو ممنوع قرار دیا، لیکن بامر مجبوری غلامی کے ایک طریقے (جنگی قیدی بنانے) کو برقرار رکھا۔
لیکن اس میں ایسی اصلاحات کیں کہ غلام بھی سماج کا ایک فرد شمار ہونے لگا، ان اصلاحات کا ذکر غلاموں کے حقوق کے عنوان سے آگے آئے گا۔
اسلام نے بہت خوش اسلوبی سے اس انسانی مشکل کا نہایت حکیمانہ حل پیش کیا، جس کو اگر سمجھ لیا جائے تو بجائے اسلام پر اعتراض پیدا ہونے کے، اسلام کی حقانیت دل میں پیوست ہوتی ہے۔
چنانچہ اسلام نے یکلخت تمام قسم کی غلامیوں کی نفی نہیں کی، بلکہ تینوں قسم کے غلاموں کے لیے الگ الگ ھدایات جاری فرمائیں۔
١- آزاد آدمی کو غلام بنانے کا حکم
جنگوں کے علاوہ کسی کو زبردستی غلام بنانے کا جو رواج اور دستور تھا، اس کی اسلام نے بالکل اجازت نہیں دی۔
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا:
”اللہ تعالیٰ روز قیامت تین آدمیوں سے جھگڑا کرے گا،ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا، جو کسی آزاد مسلمان کو غلام بناکر بیچ دے گا۔“
(صحیح البخاری،کتاب الاجارہ،باب منع الآجر۔کتاب البیوع)
٢- نسلوں سے چلے آنے والے غلاموں کے بارے میں اسلام کی تعلیمات
اسلام کے ابتدائی زمانے میں غلاموں کو بیک وقت آزاد بھی نہیں کیاجاسکتا تھا، اس سے بے شمار معاشرتی مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، چنانچہ انفرادی طور پر اسلام نے "فَکّ رَقَبَہ" (گردن چھڑانا، یعنی غلام آزاد کرانا) کی ایک زبردست اخلاقی تحریک شروع کی اور مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے غلاموں کو ازخود آزاد کردیں، تو عنداللہ وہ اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ.“ (البقرہ:۱۷۷)
ترجمہ:
بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوة دے۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ. وَمَا أَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَةُ. فَکُّ رَقَبَةٍ. أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍ. یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَةٍ. أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَةٍ.“(البلد:۱۱-۱۶)
ترجمہ:
مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھاناکھلانا۔)
غلام اور لونڈیاں خدمت گاری اور منافع حاصل کرنے کے اہم ذرائع تھے۔ اس لیے مالک انہیں آسانی سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اللہ کے رسول نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں انہیں غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آتش دوزخ سے بچائے گا"۔
(صحیح البخاری،کتاب الرہن،باب فی العتق وفضول-ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،کتاب العتق،باب فضل العتق-سنن ابو اداوٴد،کتاب العتق،باب فی ثواب العتق)
اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ٦٣ غلام آزاد فرمائے۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے صرف حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ٦٧ تھی۔ حضور کے چچا حضرت عباس رض نے اپنی زندگی میں ٧٠ غلاموں کو آزاد کیا۔ حکیم بن حزام رض نے ١٠٠، عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما نے ایک ہزار، ذوالکلاع حمیری رضي الله عنه نے آٹھ ہزار اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی۔
ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں، جن میں حضرت ابو بکر صديق اور حضرت عثمان غنى رضي الله عنهما کے نام بہت ممتاز ہیں۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا، جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے، وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہوچکے تھے۔
٣- جنگی قیدیوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات
ہجرت مدینہ کے بعد اسلام اور کفر کے درمیان بڑی بڑی جنگیں ہوئیں۔ان میں بڑی تعداد میں دشمن کی فوج کو قید کیا گیا۔
علامہ ابن قیم جوزی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں میں سے بعض کو ازراہ احسان رہا کردیا، بعض کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اور بعض کو قتل کروادیا اور بعض کو مسلمان قیدیوں کے عوض رہا کردیا گیا"۔
(زاد المعاد لابن القیم جوزی،دارالریان للتراث ،قاہرہ،۱۹۸۷ء،ج:۳،ص:۱۰۹-۱۱۰)
جب قیدیوں کے ساتھ کوئی اور معاملہ کرنے کی صورت نہ ہوتی کہ احساناً چھوڑ دینا، فدیہ لے کر چھوڑ دینا، یا قتل کرنا وغیرہ جنگ کی حکمتوں کے خلاف ہوتا تو پھر انہیں قید کر لیا جاتا۔
چنانچہ جب قیدی بنانے کی نوبت آتی، تو چونکہ اس زمانے میں اجتماعی قید خانے نہیں ہوا کرتے تھے، اس لیے ان قیدیوں کو غلاموں کی صورت میں مختلف خاندانوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ غلامی کی یہ شکل اسلام نے برقرار تو رکھی ہے،
رتیں پیدا ہو گیں، اس سے لوگ غلاموں کے ساتھ سلوک کے معاملے میں محتاط ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی غلطیوں کے بدلے میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔ مثلاً قسم کھا کر توڑ دی تو اس کے بدلے میں غلام آزاد کرو، قتلِ خطا ہوگیا تو غلام آزاد کرو، بیوی کو غلطی سے محرمات میں سے کسی کے ساتھ تشبیہ دے دی جسے "ظہار" کہتے ہیں تو غلام آزاد کرو۔
اسی طرح یہ حکم دیا گیا کہ اگر لونڈی سے بچہ پیدا ہو گیا ہے تو اس ماں کو ’ام الولد‘ کہا جاتا ہے اور اس کو فروخت کرنا حرام ہے اور مالک کے مرنے کے بعد وہ آزادی کی مستحق ہوگی۔ اسلام نے اِن اصلاحات کے ساتھ غلامی کی اس شکل کو جائز رکھا، اس صورت میں کہ جب جنگی قیدیوں کے ساتھ اور کوئی سلوک کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔
بخاری شریف اور مسلم شریف کی روایات میں جناب رسول اللہؐ کا ارشاد ہے:
"أطعموھم مما تطعمون وألبسوھم مما تلبسون".
ترجمہ:
(ان غلاموں کو) تم جو خود کھاتے ہو انہیں بھی کھلاؤ، جو خود تم پہنتے ہو انہیں بھی پہناؤ، ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام مت لو، اگر کام ان کی ہمت سے زیادہ ہے تو خود ساتھ مل کر ان کی مدد کرو۔
یعنی اسلام نے غلاموں کے معاشرتی مقام میں ایک عملی تبدیلی کرتے ہوئے یہ تعلیم دی کہ ان کا مقام یہ نہیں ہے کہ وہ جانوروں کی طرح زندگی بسر کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کے معیار میں وہ تمہارے برابر ہوں یعنی عملی طور پر ان کا مقام خادم کا ہو، نہ کہ غلام کا۔
اس سلسلے میں سیرت طیبہ کا مشہور واقعہ ذہن میں لائیں کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ جو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے جو آپ کی خدمت میں بطور غلام پیش کیے گئے، لیکن آپ نے انہیں نہ صرف آزاد فرمایا، بلکہ اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا، جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کے چچا انہیں لینے کے لیے آئے تو باوجود نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اختیار دینے کے، انہوں نے اپنے سگے چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا، گویا پہلے غلام بنانے سے بنا تھے، اب اپنی مرضی سے بن رہے ہیں۔ اس غلامی سے مراد حضورؐ کی خدمت تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو حضورؐ کا خادم بنانے میں سعادت سمجھی۔ یہ حضورؐ کا حسنِ سلوک تھا کہ ایک اجنبی غلام جسے اس کا خاندان مل جاتا ہے، لیکن وہ اپنے خاندان کے ساتھ جانے کے بجائے جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
غلاموں کے ساتھ آپؐ نے کیا سلوک کیا اور اپنے اصحابؓ کو کس سلوک کی تلقین کی اس کے متعلق بیسیوں روایات ہیں۔ ایک انصاری صحابیؓ حضرت ابو مسعودؓ نے اپنے غلام کو کسی بات پر تھپڑ ما ردیا۔ حضورؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے غلام کو تھپڑ مارا ہے؟ صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ہاں میں نے اس سے ایک کام کہا تھا جو اس نے نہیں کیا تو میں نے اس پر اسے تھپڑ مارا۔ فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس کے اوپر بھی کوئی طاقت ہے، جو تمہارے تھپڑ پر تمہیں سزا دے سکتی ہے۔ صحابیؓ نے کہا یا رسول اللہ غلطی ہوگئی۔ آپؐ نے پوچھا اس غلطی کی تلافی؟ صحابیؓ نے کہا یا رسول اللہ میں اس غلام کو آزاد کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزاد نہ کرتے، تو اللہ کے عذاب کا شکار ہوتے۔
اسلام نے غلامی کا وہ تصور پیش کیا کہ جس میں مالک اپنے غلام کو اپنے جیسے کپڑے پہنائے، اپنے جیسا کھانا کھلائے اور اپنے جیسی زندگی کی سہولتیں مہیا کرے۔ ایسی غلامی کہ جس میں مالک کے اپنے غلام کو تھپڑ تک مارنے پر وعید ہے۔ جنگی قیدیوں کے لیے ایسی غلامی تو کسی آسان سے آسان قید سے بھی کئی گنا بہتر ہے۔
جناب نبی کریمؐ نے اپنی تعلیمات سے غلاموں کا معاملہ اتنا حساس بنا دیا کہ لوگوں نے معمولی زیادتی ہوجانے پر غلاموں کو آزاد کرنا شروع کر دیا۔ ایک غزوہ میں جناب نبی کریمؐ کو فتح حاصل ہوئی اور مخالف قبیلے کے لوگ قیدی ہو کر آگئے، جن میں غلام بھی تھے اور لونڈیاں بھی۔ حضورؐ کے حصے میں قبیلے کے سردار کی بیٹی آگئی، کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ اس شہزادی کو اگر آپؐ اپنی بیوی ہونے کا اعزاز دیں تو پورا قبیلہ مسلمان ہو سکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، میں شہزادی کو آزاد کرتا ہوں۔ آزاد کرنے کے بعد حضورؐ نے شادی کی پیشکش کی تو شہزادی نے اسے اپنے لیے ایک بہت بڑا اِعزاز سمجھا اور ہاں کر دی۔ یہ ام المؤمنین حضرت جویریہؓ تھیں۔ جب یہ شادی ہوئی تو صحابہؓ نے سوچا کہ حضورؐ کے سسرال والے ہماری غلامی میں رہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چنانچہ تمام صحابہؓ نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ حضورؐ کے سسرال کی کوئی بندی یا کوئی بندہ ہماری غلامی میں نہیں رہے گا۔ حضرت جویریہؓ سے لوگ کہا کرتے تھے کہ تم اپنے خاندان کے لیے کتنی خوش قسمت ثابت ہوئی ہو کہ خود ام المؤمنین بن گئی ہو اور تمہارا قبیلہ نہ صرف تمہاری وجہ سے آزاد ہوا، بلکہ مسلمان بھی ہوگیا۔
غلاموں کے حقوق
اسلام نے غلاموں کے حقوق سے متعلق درج ذیل ہدایات دی ہیں:
١- غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید
٢- غلام کو غلام کہہ کر نہ پکارا جائے
٣- غلاموں کی تعلیم وترتیب کا اہتمام آقا کے ذمہ ہے
٤- غلاموں کی شادی بیاہ کی ذمہ داری بھی آقا پر ہے
٥- غلاموں کو مارنے کی ممانعت اور اگر مارا تو آزاد کرنے کا حکم
٦- آقا جو کھائے اور پہنے اپنے غلاموں کو بھی وہی کھلائے اور پہنائے
٧- آقا اگر کوئی شرعی خطا کرے تو اس کے کفارے میں غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم
٨- سورج چاند گرہن کے وقت غلاموں کی آزادی
٩- غلاموں کی صلاحیتوں کا معاشرے میں اعتراف
١٠- سرکاری مناصب حتی کہ اہم عہدوں پر ان کی تعیناتی۔
اب اگر اسلام کی جنگی قیدیوں سے متعلق تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے، دور جدید کے متمدن ممالک کا جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک ملاحظہ کر لیں، تو واضح ہو جائے گا کہ اسلام سے متعلق پھیلائے گئی باتوں میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Islam, mein, main, ghulaami, ghulami, ka, masala, masalahm maslah,
Concept of Slavery in Islam, Islam and Slavery, Slavery in Islam, Slavery and Islam, The concept of Riqq