عنوان: منافع طے کیے بغیر مضاربت کا حکم (3746-No)

سوال: کیا فرماتے علماء کرام اس مسٗلہ کے بارے میں کہ سعید نے ہارون کے بزنس میں انویسٹمنٹ کی، جس کے بدلے ہارون ہر مہینے حساب کر کے سعید کو پرافٹ دیگا، لیکن پرافٹ کی پرسنٹیج طے نہیں ہوئی، ہارون جتنا چاہے پرافٹ دیگا، ہارون پرافٹ ہر مہینے راؤنڈ کر دیتا ہے، مثلاََ 14700 ہو تو 15000 دے دیتا ہے، اب ہارون کا بزنس سلوو ہو گیا ہے تو پرافٹ بھی کم دے رہا ہے، پچھلے مہینے پرافٹ 11000 بنا تو سعید نے کہا مجھے تم 15000 دو اور اپنے پرافٹ سے کم کرلو، ہارون ایسا کسی مہینے مان جاتا ہے اور کبھی نہیں بھی مانتا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ معاملہ شرعاََ درست ہے اورسعید کا ایسا فکسڈ امونٹ لینا جائز ہے ؟

جواب: واضح رہے کہ وہ معاملہ جس میں ایک آدمی کی طرف سے محنت، جبکہ دوسرے آدمی کی طرف سے سرمایہ ہو، شریعت کی اصطلاح میں مضاربت کہلاتا ہے، اور مضاربت کے معاملے میں آپس کی رضامندی سے منافع (پرافٹ) میں سے سرمایہ کار اور محنت کرنے والے کا حصہ فیصد کے حساب سے متعین کرنا ضروری ہوتا ہے، اور منافع (پرافٹ) میں سے حصہ متعین نہ کرنے کی صورت میں مضاربت کا معاملہ فاسد ہوجاتا ہے، اور مضاربتِ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ سرمایہ سے حاصل ہونے والا تمام پرافٹ سرمایہ لگانے والے کا ہوتا ہے، جبکہ محنت کرنے والے کو مارکیٹ کے حساب سے اپنی محنت کی اجرت ملتی ہے۔
صورت مسئولہ میں مضاربت کا معاملہ چونکہ فاسد ہے، اس لیے سعید نے ہارون کے کاروبار میں جتنا سرمایہ لگایا ہے، اس کا تمام پرافٹ سعید کا ہے، البتہ ہارون مارکیٹ کے حساب سے اپنی محنت کی اجرت (مزدوری) کا حق دار ہے، آئندہ کے لیے اس معاملے کو درست کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سعید نے ہارون کے کاروبار میں جتنا سرمایہ لگایا ہے، اس سے حاصل ہونے والے حقیقی منافع میں سے ہر ایک کا حصہ فیصد کے حساب سے متعین کیا جائے، جس پر دونوں فریق راضی ہوں، اس طرح کرنے سے ان شاء اللہ یہ معاملہ درست ہوجائے گا۔
نیز مضاربت کے معاملے میں حقیقی منافع میں سے فیصد کے حساب سےحصہ متعین کیے بغیر فکسڈ اماؤنٹ لینا ناجائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (کتاب المضاربۃ، 85/6، ط: دار الكتب العلمية)
(وأما) الذي يرجع إلى الربح فأنواع.
(منها) إعلام مقدار الربح؛ لأن المعقود عليه هو الربح، وجهالة المعقود عليه توجب فساد العقد ولو دفع إليه ألف درهم عن أنهما يشتركان في الربح ولم يبين مقدار الربح جاز ذلك، والربح بينهما نصفان؛ لأن الشركة تقتضي المساواة قال الله تعالى عز شأنه: فهم شركاء في الثلث ولو قال: على أن للمضارب شركا في الربح جاز في قول أبي يوسف، والربح بينهما نصفان، وقال محمد: المضاربة فاسدة.
(ومنها) أن يكون المشروط لكل واحد منهما من المضارب ورب المال من الربح جزءا شائعا، نصفا أو ثلثا أو ربعا، فإن شرطا عددا مقدرا بأن شرطا أن يكون لأحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقي للآخر لا يجوز، والمضاربة فاسدة؛ لأن المضاربة نوع من الشركة، وهي الشركة في الربح، وهذا شرط يوجب قطع الشركة في الربح؛ لجواز أن لا يربح المضارب إلا هذا القدر المذكور، فيكون ذلك لأحدهما دون الآخر، فلا تتحقق الشركة، فلا يكون التصرف مضاربة.

بدائع الصنائع: (کتاب المضاربۃ، 108/6، ط: دار الكتب العلمية)
(وأما) حكم المضاربة الفاسدة، فليس للمضارب أن يعمل شيئا مما ذكرنا أن له أن يعمل في المضاربة الصحيحة، ولا يثبت بها شيء مما ذكرنا عن أحكام المضاربة الصحيحة، ولا يستحق النفقة، ولا الربح المسمى، وإنما له أجر مثل عمله، سواء كان في المضاربة ربح أو لم يكن؛ لأن المضاربة الفاسدة في معنى الإجارة الفاسدة، والأجير لا يستحق النفقة ولا المسمى في الإجارة الفاسدة، وإنما يستحق أجر المثل، والربح كله يكون لرب المال؛ لأن الربح نماء ملكه، وإنما يستحق المضارب شطرا منه بالشرط، ولم يصح الشرط فكان كله لرب المال.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 734 Mar 14, 2020
Munafa, Munafah, tay, tey, kiay, kiey, baghair, beghair, bagheir, muzarbat, mudarbat, ka, hukm, hukum, Ruling on muzarbat without fixing profit, mudarabat, agreeing, mutually finalizing

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.