عنوان:
طلاق کے بعد ایک دوسرے کو دیئے گئے تحائف کا حکم(3846-No)
سوال:
اگر کوٸی بیوی خود طلاق کا مطالبہ کرے تو کیا لڑکے کے گھر والوں کو جو بیوی کے گھر والوں کی طرف سے تحائف ملے ہوتے ہیں، جیسے کہ آج کل رواج ہے کہ دلہن کے گھر والے لڑکے کی والدہ کو شادی کے موقع پر سونے کی بنی ھوٸی کوٸی چیز دیتے ہیں تو اگر بیوی طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو طلاق ہونے کی صورت میں یہ زیور واپس کرنا ہوگا؟ جزاك اللهُ
جواب: صورت مسؤلہ میں اگر لڑکی کے گھر والوں نے سونا یا اور کوئی چیز لڑکے کے گھر والوں کو ملکیت کے طور پر دی تھیں، تو اب یہ لڑکے کے گھر والوں کی ملکیت ہے، اور ان چیزوں کو طلاق ہونے کی صورت میں واپس لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مذکورہ تحائف دیتے وقت کوئی نیت نہیں تھی یا کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی، تو ایسی صورت میں وہاں برادری کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا، اگر ان کے عرف میں تحائف ملکیت کے طور پر دیئے جاتے ہوں، تو واپس لینا جائز نہیں ہے، اور اگر ان کے عرف میں یہ تحائف صرف استعمال کرنے کے لئے دیئے جاتے ہوں، تو ان کا واپس لینا جائز ہے۔
واضح رہے کہ اگر طلاق کا مطالبہ بیوی کی طرف سے ہو، تو شرعا اسے "خلع" کہا جاتا ہے، اور خلع کی صورت میں زوجین آپس میں جو مال یا سامان طے کریں گے، وہی دینا لازم ہوگا، اس کے علاوہ جو چیزیں ہیں ان کا حکم وہی ہوگا، جو ماقبل میں ذکر کیا جاچکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2589)
عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:ليس لنا مثل السوء، الذي يعود في هبته كالكلب يرجع في قيئه۔
سنن الترمذی: (باب ما جاء لا وصیۃ لوارث، رقم الحدیث: 2120)
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ....قَالَ:الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ
رد المحتار:
ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا۔
الفتاوی الھندیۃ: (327/1)
وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجتہ أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیہا علی جہۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Talaq, kay, baad, aik, doosray, ko, diay, diey, gae, gaey, tahaif, ka, hukm, hukum,
After Divorce what is the ruling on gifts exchanged, gifts given, gifts taken