عنوان:
"میں تمہیں تحریری طور پر دو مرتبہ طلاق دیتا ہوں"، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں"، ان الفاظ سے طلاق کا حکم
(3908-No)
سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرے شوہر نے چند ہفتوں پہلے فون پر میسیج کیا کہ
( by written I divorce you. I am giving you divorce twice)
یعنی میں تمہیں تحریری طور پر طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں دو مرتبہ طلاق دیتا ہوں۔
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد ان سے فون پر بات ہو رہی تھی، تو پھر دوبارہ کسی بات پر جھگڑا ہوگیا، جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر میں آپ کو اتنی بری لگتی ہوں تو آپ مجھ سے جان کیوں نہیں چھڑا لیتے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔
اب میرے شوہر بضد ہیں کہ میری آزاد کرنے سے طلاق مراد نہیں تھی اور میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔
براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا طلاق واقع نہیں ہوئی اور کیا ہم ساتھ رہ سکتے ہیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت اگر واقعہ کے مطابق ہے، تو اس کا حکم یہ کہ فون پر بھیجی گئی تحریری دو طلاقوں سے دو طلاق رجعی واقع ہو گئیں، پھر جب شوہر نے کہا کہ "میں تمہیں آزاد کرتا ہوں"، ان الفاظ کا استعمال ہمارے عرف میں صریح طلاق کے لیے ہوتا ہے، لہذا بغیر نیت کے بھی ان الفاظ سے ایک طلاق واقع ہو گئی، اس طرح اس عورت پر تین طلاقیں واقع ہو گئیں اور وہ عورت اپنے شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ نکاح ختم ہوچکا ہے، اس کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا یا بات چیت کرنا ناجائز اور حرام ہے، دونوں کو چاہیے کہ فورًا علیحدہ ہوجائیں اور تین طلاقیں واقع ہونے کے بعد جتنا عرصہ ساتھ رہے ہیں، اس پر سچے دل سے توبہ اور استغفار کریں۔
اب اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اس عورت کو طلاق دیدے، یا وہ شخص انتقال کر جائے، پھر وہ عورت اپنی عدت مکمل کر کے دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرلے، تب یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایۃ: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ۔۔۔۔الخ
ترجمہ:
اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)
الفتاویٰ الھندیۃ: (379/1)
"والأصل الذي علیہ الفتوی في زماننا ہذا فی الطلاق بالفارسیۃ أنہ إذا کان فیہا لفظ لا یستعمل إلا فی الطلاق، فذلک اللفظ صریح یقع بہ الطلاق من غیر نیۃ إذا أضیف إلی المرأۃ".
رد المحتار: (299/3، ط: سعید)
"فإن سرحتک کنایۃ لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ في الصریح، فإذا قال: رہا کردم، أي سرحتک یقع بہ الرجعی مع أن أصلہ کنایۃ أیضا".
و فیہ ایضاً: (قبیل مطلب لا اعتبار بالاعراب ھنا، 503/2)
"وقد صرح البزازی اولا بان حلال اللہ علی حرام بالعربیۃ اوالفارسیۃ لا یحتاج الی نیۃ حیث قال ولو قال حلال ایزد بروی او حلال اللہ علیہ حرام لا حاجۃ الی النیۃ وہو الصحیح المفتی بہ للعرف وانہ یقع بہ البائن لانہ المتعارف ثم فرق بینہ وبین سرحتک فان سرحتک کنایۃ لکنہ فی عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح فاذا قال رہا کردم ای سرحتک یقع بہ الرجعی مع ان اصلہ کنایۃ ایضا وما ذاک الا انہ غلب فی عرف الفرس استعمالہ فی الطلاق وقد مر ان الصریح ما لم یستعمل الا فی الطلاق من ای لغۃ کانت لکن لما غلب استعمال حلال اللہ فی البائن عند العرب والفرس وقد بہ البائن… فیتوقف الآن وقوع البائن بہ علی وجود العرف… وکونہ التحقق بالصریح للعرف لا ینا فی وقوع البائن بہ فان الصریح قد یقع بہ البائن الخ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
Mein, tumhain, tehreeri, taur, par, do, martabah, talaq, daita, hoon, hun, mein, tumhain, aazaad, azaad, karta, in, alfaz, alfaaz, say, talaq, talaaq, ka, hukm, hukum,
Ruling on divorce from the words, "I divorce you twice in writing, I free you"