عنوان: علماء کرام سے ہر چھوٹے مسئلے میں رہنمائی لینا، کیا اس سے علماء کرام کو تنگی ہوتی ہے؟ (3990-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! اکثر علماء یہی کہتے ہیں کہ ہر مسئلہ علماء کرام سے پوچھنا چاہیے، میں اس بات پر ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہونا چاہیے، لیکن کیا ہر چھوٹی چھوٹی بات کے لیے علماء کو کال کرنا یا ان کے جواب کے انتظار میں رہنا اپنا اور علماء کا وقت ضائع کرنا نہیں ہے؟
کیا عوام عام معتبر کتب، مثلا: بہشتی زیور، آپ کے مسائل اور ان کا حل، نماز یا زکوة وغیرہ کے انسائیکلو پیڈیاز وغیرہ یا مختلف ویب سائٹس (جن میں ماہر علماء کے حل شدہ فتاوی موجود ہوتے ہیں) کا خود سے مطالعہ کر کے ان کتب سے استفادہ نہیں کر سکتے؟
نوٹ:
یاد رہے کہ میرا سوال ان عام فہم مسئلوں سے متعلق ہے جو ماہر علماء کی نگرانی میں حل ہوئے ہیں اور خلاصہ کی شکل میں کتابوں یا نیٹ پر موجود ہیں، وہ مسائل ہر گز مراد نہیں کہ جن کو قرآن و حدیث کا مطالعہ کر کے سجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ علماء کرام دین کے خادم اور محافظ ہیں، اس واسطے انہوں نے اس بات کی ذمہ داری لی ہوئی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی زندگی کے معمولی سے معمولی مسئلے میں بھی رہنمائی چاہے گا، تو یہ حضرات بغیر کسی ناگواری کے عبادت سمجھ کر اس کی رہنمائی کرنے کو اپنا دینی ومنصبی فریضہ سمجھتے ہیں، سو اس حوالے سے علماء کرام کبھی بھی اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں فرماتے، لہذا ان سے معمولی مسائل میں بھی بلا جھجھک رہنمائی لی جاسکتی ہے۔
چونکہ لوگوں کی دینی معلومات کی سطح مختلف ہوتی ہے، لہذا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص جس کو دینی مسائل سے دلچسپی ہو، اس کے نزدیک کوئی مسئلہ آسان اور معمولی ہو، لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جن کی دینی معلومات کم ہوتی ہیں، ان کے لیے معمولی مسئلہ بھی اہم ہوتا ہے۔
ہاں! جو لوگ ضرورت کا مسئلہ بہشتی زیور جیسی مسائل کی کتب یا مستند دینی ویب سائٹس سے اخذ کر سکتے ہوں، ایسے لوگوں کو اپنی فہم کے مطابق مسائل کی کتابوں سے ضرور رہنمائی لینی چاہیے، لیکن اس میں بھی بعض اوقات ان کو علماء کرام سے اپنی سمجھی ہوئی بات کی تصدیق کروانی پڑتی ہے، لہذا ایسی صورت میں بھی علماء کرام سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النحل، الایۃ: 43)
فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَo

شرح البخاری لابن بطال: (176/1، ط: مکتبۃ الرشد)
أن للعالم أن يسكت إذا لم يسأل عن العلم حتى يسأل عنه، ولا يكون كاتما، لأن على الطالب أن يسأل، قال تعالى: (فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون) [النحل: ٤٣] ، وليس للعالم أن يسكت إذا رأى تغييرا فى الدين إذا علم أن ذلك لا يضره، ثم على العالم أن يبين إذا سئل، فإن لم يبين بعد أن يسأل فقد كتم، إلا أن يكون له عذر فيعذر.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1108 Apr 09, 2020
ulma e karam, ulma ikram, say, se, har, chootay, choote, masalay, maslay, mein, main, rehnumai, rahnumai, laina, lena, kia, is say, ulma e karam, ko, tangee, tangi, hoti, hote, hay, Does Seeking guidance from religious scholars on every small issue bothers them, pity issue, minor issue

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.