سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرے دادا کی وفات کے بعد میرے ابو اور چچاؤں کے درمیان میراث تقسیم نہیں ہوئی تھی، جائیداد کا مختار نامہ میرے بڑے چچا کے نام تھا، چنانچہ وہ جس طرح چاہتے، میرے ابو اور چچاؤں کی جائیداد کواستعمال کر سکتے تھے، باقی چچاؤں نے تو اپنا حصہ لے کر الگ کاروبار کر لیا، لیکن میرے والد چونکہ بیمار رہتے تھے، اور اپنے بڑے بھائی ہی کے ساتھ رہتے تھے، اس لیے جب بھی انہوں نے جائیداد میں سے اپنا حصہ مانگا، تو چچا نے کہا کہ تم بیمار ہو، کوئی کام تو کر نہیں سکتے، پیسے لے کر اپنا نقصان کرو گے، اس پر والد صاحب خاموش ہو جاتے، اس طرح بڑے چاچا نے میرے والد صاحب کو ان کی زندگی میں کچھ بھی نہیں دیا۔
اب والد صاحب کی وفات کے بعد بڑے چچا کا کہنا ہے کہ والد صاحب کے نام چار کنال زمین ہے، جب کہ باقی چچاؤں کو بارہ کنال زمین ملی ہے اور خود ان کے نام بتیس کنال زمین ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ زمیں میں نے کاروبار کر کے خریدی ہے۔
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ پیسوں سے کیے گئے کاروبار کا نفع اور بنائی گئی جائیداد بھی مشترک ہو گی یا نہیں؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ میرے والد صاحب کی میراث کیسے تقسیم ہوگی، اور کیا دادا کی چھوڑی گئی زمین کو اس طرح تقسیم نہیں کرنا چاہیے کہ پہلے دادی کو ملے اور پھر تمام بھائیوں میں برابر میں تقسیم ہو؟
یہ بھی بتائیں کہ کیا میرے بڑے چچا نے جان بوجھ کر والد صاحب کو زندگی میں ان کا حصہ نہ دے کر (جب کہ وہ مسلسل تقاضہ بھی کرتے رہے) ٹھیک کیا؟
نوٹ:
سائلہ بڑے چچا ہی کی حقیقی بیٹی ہے، جسے اس بیمار بھائی نے گود لیا تھا، جس کو بڑے چچا نے ٹال مٹول کر کے اس کے جائز حصہ سے محروم رکھا۔
جواب: صورتِ مسئولہ میں بھائیوں نے اپنے والد کی جائیداد کو جس طریقے سے تقسیم کیا ہے، وہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں دو بہنوں کو حق میراث سے محروم کردیا گیا ہے ، لہذا صورت مسئولہ میں والد مرحوم اور بیمار بھائی جن کا انتقال ہوا ہے، ان دونوں کی میراث کو از سر نو شرعی طریقے پر تقسیم کرنا ضروری ہے، نیز مشترکہ جائیداد سے اب تک جتنی کمائی حاصل کی گئی ہے، دیانۃ ً ان کو بھی میراث میں شامل کرنا ضروری ہے، اور جس بھائی نے مشترکہ جائیداد میں سے جتنا مال لے کر اپنے لیے خرچ کیا ہے اسے بھی واپس لوٹا کر مال میراث میں شامل کرنا ضروری ہے، البتہ جن بھائیوں نے مشترکہ جائیداد کے منافع کو بڑھانے میں محنت کی ہے ، وہ اپنی محنت کے بدلے عرف (عوم الناس کی عام عادت) کے مطابق اجرت ملنے کے حق دار ہیں۔
نیز غیر شرعی طریقے پر ایک دوسرے کے حصوں میں اب تک ناجائز تصرف کرنے کی وجہ سے آپس میں معافی تلافی اور توبہ واستغفار بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (فصل فی صفات القسمۃ، 26/7)
وأما صفات القسمۃ فأنواع منہا أن تکون القسمۃ عادلۃ غیر جائرۃ وہی الی ان قال فإذا وقعت جائرۃ لم یوجد التراضی ولا إفراز نصیبہ بکمالہ لبقاء الشرکۃ فی البعض فلم تجز وتعاد۔وعلی ہذا إذا ظہر الغلط فی القسمۃ المبادلۃ بالبینۃ أو بالإقرار تستأنف لأنہ ظہر أنہ لم یستوف حقہ فظہر أن معنی القسمۃ لم یتحقق بکمالہ۔
الفتاویٰ الھندیۃ: (الباب الحادی عشر فی دعو الغلط فی القسمۃ، 288/5)
عن محمد قاسم قسم دار بین رجلین اعطی احدھما اکثر من الاٰخر غلطاً وبنی احدھما فی نصیبہ قال محمدؒ یستقبلون القسمۃ فمن وقع بناء ہ فی قسم غیرہٖ رفع بناء ہ ولایرجعان علی القاسم بقیمۃ البناء ولٰکنھما یرجعان علیہ بالاجر الذی اخذہ کذا فی الظھیرۃ۔
تنقيح الفتاوى الحامدية: (93/1، ط: دار المعرفة)
وفی تنیح الحامدیۃ :ونقل المؤلف عن الفتاوى الرحيمية سئل عن مال مشترك بين أيتام وأمهم استربحه الوصي للأيتام هل تستحق الأم ربح نصيبها أو لا أجاب لا تستحق الأم شيئا مما استربحه الوصي بوجه شرعي لغيرها كأحد الشريكين إذا استربح من مال مشترك لنفسه فقط ويكون ربح نصيبها كسبا خبيثا ومثله سبيله التصدق على الفقراء اه
(أقول) أيضا ويظهر من هذا ومما قبله حكم ما لو كان المباشر للعمل والسعي بعض الورثة بلا وصاية أو وكالة من الباقين.
وفی الخیریۃ : سئل فی دار معدۃ للا ستغلال بین بالغ ویتیم وامرأۃ سکنھا الشریک البالغ بلااستیجار حصۃ الیتیم سنۃ ھل یلزم البالغ اجرۃ حصۃ الیتیم أم لا م اجاب قف افتی کثیر من المتاخرین بوجوب اجرۃ المثل فی ذلک صیانۃ لمال الیتیم (الفتاوی الخیریۃ ج۳ص ۹۳ ).
الهداية: (94/3، ط: دار احياء التراث العربي)
قال الامام المرغینانی رحمہ اللہ تعالی :فيكون سبيله التصدق في رواية، ويرده عليه في رواية لأن الخبث لحقه، وهذا أصح
البنایۃ: (460/8، ط: دار الكتب العلمية)
(ويرده عليه) : أي على الأصيل.
(في رواية) ش: أخرى عن أبي حنيفة، فإن رده على الأصيل فإن كان الأصيل فقيرا طاب له، وإن كان غنيا ففيه روايتان في كتاب الغصب. قال فخر الإسلام في "شرح الجامع الصغير ": والأشبه أي يطب له، لأنه إنما يرده عليه على أنه حقه م: (لأن الخبث لحقه) ش: أي لحق الأصيل لا لحق الشرع.
م: (وهذا أصح) ش: أي الرد، لأن يرد الربح على المكفول عنه أصح من القول بالتصدق م: (لكنه استحباب) ش: أي لكن الرد عليه مستحب، لأن الملك لكفيل م: (لا جبر، لأن الحق له) ش: أي لا يجبر على دفعه إلا أنه لما تمكن الخبث يستحب الدفع إليه، بخلاف الربح في الغصب حيث يجبر الغاصب على الدفع لأنه لا حق للغاصب في الربح.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی