عنوان: "جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو" روایت کی تحقیق اور حکم(4000-No)

سوال: مندرجہ ذیل حدیث کی سند بیان فرما دیں: "حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جب شعبان کی پندرہویں رات آئے تو اس رات میں اللہ کے حضور میں نوافل پڑھو اور اس دن کو روزہ رکھو، کیونکہ اس رات میں آفتاب غروب ہوتے ہی اللہ تعالی کی خاص رحمت اور تجلی پہلے آسمان پر اترتی ہے اور وہ ارشاد فرماتا ہے کہ ہے کوئی بندہ جو مجھ سے مغفرت اور بخشش طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کا فیصلہ کروں، ہے کوئی بندہ جو روزی مانگے اور میں اس کو روزی دینے کا فیصلہ کروں، کوئی مبتلائے مصیبت بندہ ہے جو مجھ سے صحت و عافیت طلب کرے اور میں اس کو عافیت عطا کروں، اس طرح مختلف قسم کے حاجت مندوں کو اللہ پکارتا ہے کہ وہ اس وقت مجھ سے اپنی حاجتیں مانگیں اور میں عطا کروں، غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اللہ تعالی کی رحمت اسی طرح اپنے بندوں کو اس رات میں پکارتی رہتی ہے۔ (ابن ماجہ)

جواب: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ۔
ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی ( کسی بیماری یا مصیبت میں ) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطا فرما دوں؟ ۔
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتب میں ذکر کی گئی ہے:
1۔ سنن ابن ماجه:( كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِالنِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، حدیث نمبر:1388)

شعب الإيمان للبیھقی:(ج:5، ص:354،ط: مكتبة الرشد)
فضائل الاوقات للبيهقي:(ص: 122،ط:مكتبة المنارة )
أخبار مكةللفاكهي:(ج: 3،ص: 66،ط: دار خضر - بيروت)
الترغيب للأصبهاني الملقب بقوام السنة: ( ج: 2،ص:297،ط:دار الحديث، القاهرة-)
الترغيب والترهيب للمنذري:(ج:2، ص:74،ط: دار الكتب العلمية - بيروت)
مذکورہ بالا روایت کی اسنادی حیثیت
یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، لیکن اس کو موضوع نہیں کہاجاسکتا ہے، اگرچہ اس روایت کی سند میں ابوبکر بن محمد بن ابی سبرۃ السبری المدنی ایک روای ہے، جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا"یضع الحدیث و یکذب" یعنی حدیثیں گھڑتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔
ابن عدی نے کہا کہ ان کا شمار روایات گھڑنےوالوں میں سے یے۔
امام بخاری نے ان کو ایک مقام پر ضعیف اور ایک مقام پر منکر کہا ہے۔ امام نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے۔
امام ذہبی نے ان کو حفظ کی جہت سے ضعیف کہا ہے۔
مذکورہ بالا روایت کے موضوع(من گھڑت ) نہ ہونے کی وجوہات
1۔ اس روایت پر مذکورہ بالا جرح مبالغہ سے خالی نہیں ہے، کیونکہ حضرات محدثین کے یہاں یہ مسلم اصول ہے۔
واما الْجرْح فانه لَا يقبل إِلَّا مُفَسرًا مُبين سَبَب الْجرْح لِأَن الْجرْح يحصل بِأَمْر وَاحِد فَلَا يشق ذكره وَلِأَن النَّاس مُخْتَلفُونَ فِي أَسبَاب الْجرْح فيطلق أحدهم الْجرْح بِنَاء على مَا اعتقده جرحا وَلَيْسَ الْجرْح فينفس الْأَمر فَلَا بُد من بَيَان سَببه ليظْهر اهو فادح أم لَا( الرفع والتكميل في الجرح والتعديل لعبد الحي اللكنوي، ص: 80،ط: مكتب المطبوعات الإسلامية )
یعنی جرح مبھم بلا سبب و تفصیل، اگر کسی محدث پر کی جاۓ تو قابل قبول نہیں ہوتی یے، جب تک کے اس جرح پر کوئی دلیل (جرح کا معقول و مفسر سبب) نہ پیش کی جاۓ۔
اور اس روایت کے راوی "ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کے متروک الحدیث ، وضع الحدیث ہونے پر محدثین میں سے کسی نے بھی تفصیل اور سبب بیان نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے محدث نے ابْنُ أَبِي سَبْرَة کو صرف ضعیف کہا ہے اور امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ آپ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف الحدیث ہیں، بلکہ امام ذہبی نے"ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کا تذکرہ ہی تعریفی کلمات سے شروع فرمایا ہے:
الفقيه الكبير قاضي العراق أبو بكر إبن عبد الله إبن محمد بن أبي سبرة .... ( ج:7،ص:332ط:مؤسسة الرسالة)
ترجمہ :
(أبو بكر إبن عبد الله إبن محمد) بن أبي سبرة بڑے فقیہ، عراق کے قاضی ہیں ...
لہذا محدثین کی یہ جرح اتنی بڑی جرح نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے راوی کی روایت قابلِ رد ہو، جبکہ ضعیف روایت محدثین کے نزدیک فضائلِ اعمال میں مقبول ہے۔
2۔ حضرت علیؓ کی اس روایت میں "ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کے علاوہ باقی رواة ثقه (قابل اعتماد) ہیں، محض ایک راوی پر وضع(احادیث گھڑنے) کی تہمت کی وجہ سے اس حدیث کو موضوع( من گھڑت ) نہیں کہا جاسکتا ہے۔
3۔اگر یہ حدیث موضوع ( من گھڑت ) ہوتی تو حافظ منذری اس کو اپنی کتاب " الترغیب و الترھیب" میں ذکر نہ کرتے، کیونکہ علامہ سیوطی سے موطا امام مالک اور صحیحین کے علاوہ کتب احادیث کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا:
وَإِذَا عَلِمْتُمْ أَنَّ الْحَدِيثَ فِي سَائِرِ الْكُتُبِ السِّتَّةِ أَوْ مُسْنَدِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ فَارْوُوهُ مُطْمَئِنِّينَ، وَكَذَلِكَ مَا كَانَ مَذْكُورًا فِي تَصَانِيفِ الشَّيْخِ محيي الدين النووي، أَوِ المنذري صَاحِبِ التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ، فَارْوُوهُ مُطْمَئِنِّينَ.
(الحاوي للفتاوي للسيوطي: ج:1، ص:346، ط: دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت)
ترجمہ:
اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ کوئی حدیث صحاح ستہ یا مسند احمد اور اسی طرح امام نووی کی تصانیف یا حافظ منذری صاحبِ ترغیب وترھیب کی تصانیف میں موجود ہے تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو یعنی وہ موضوع نہیں ہوسکتی ہے۔
اور علامہ شوکانی نے بھی اس حدیث کے ضعیف ہونے کی صراحت کی ہے۔
خلاصہ کلام:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں" ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ" کے علاوہ باقی تمام رواة ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، صرف "ابْنُ أَبِي سَبْرَةَؒ" کو محدثینؒ نے قوت حافظہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ ضعیف کہا جاسکتا ہے اور اس روایت کے دیگر شواہد موجود ہیں، جو اس کے اصل (بنیاد ہونے) کے ثبوت پر دلالت کرنے والے ہیں، اس لیے اس روایت کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سير أعلام النبلاء للذهبي: (332/7، ط: مؤسسة الرسالة)
حَدَّثَ أَبُو بَكْرٍ بنُ أَبِي سَبْرَةَ عَنْ: عَطَاءِ بنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَالأَعْرَجِ، وَزَيْدِ بنِ أَسْلَمَ، وَهِشَامِ بنِ عُرْوَةَ، وَشَرِيْكِ بنِ أَبِي نَمِرٍ، وَطَائِفَةٍ.
وَهُوَ ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِه....وَقَالَ البُخَارِيُّ: ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ.
وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوْكٌ.
وَرَوَى: عَبْدُ اللهِ وَصَالِحٌ ابْنَا أَحْمَدَ، عَنْ أَبِيْهِمَا، قَالَ: كَانَ يَضَعُ الحَدِيْثَ.
قُلْتُ: يُقَالُ: اسْمُهُ مُحَمَّدٌ.
وَقِيْلَ: عَبْدُ اللهِ.....قَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: عَامَّةُ مَا يَرْوِيْهِ غَيْرُ مَحْفُوْظٍ، وَهُوَ فِي جُمْلَةِ مَنْ يَضَعُ الحَدِيْثَ۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال: (105/33، ط: مؤسسة الرسالة)
وَقَال صالح بْن أحمد بْن حنبل  ، عَن أبيه: أبو بكر مُحَمَّدِ ابْنِ عَبد اللَّهِ بْنِ أَبي سبرة يضع الحديث، وكان ابن جُرَيْج يروي عنه.وَقَال عَبد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حنبل  ، عَن أبيه: ليس بشيءٍ. كان يضع الحديث ويكذب....وَقَال الغلابي  ، عَن يحيى بْن مَعِين: ضعيف الحديث.
وَقَال أَحْمَد بْن سعد بْن أَبي مريم ، عَن يحيى بْن مَعِين: ليس بشيءٍ.وَقَال علي ابن المديني  : كان ضعيفا فِي الحديث، وكان ابن جُرَيْج أخذ منه مناولة.
وَقَال أيضا  : كان منكر الحديث، هو عندي مثل ابن أَبي .
وَقَال إِبْرَاهِيم بْن يعقوب الجوزجاني  : يضعف حديثه.
وذكره يعقوب بْن سفيان في باب" من يُرْغَبُ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُمْ" .وقَال البُخارِيُّ : ضعيف.
وَقَال في موضع آخر  : منكر الحديث.وَقَال أَبُو عُبَيد الآجُرِّيّ، عَن أبي دَاوُد: مفتي أهل المدينة.وَقَال النَّسَائي  : متروك الحديث.وَقَال أبو أحمد بْن عدي : عامة ما يرويه غير محفوظ، وهو فِي جملة من يضع الحديث.قال مُحَمَّد بْن سعد  : كان كثير العلم والسماع والرواية، ولي قضاء مكة لزياد بْن عُبَيد اللَّه، وكان يفتي بالمدينة. وقدم بغداد، فمات بها سنة اثنتين وستين ومئة فِي خلافة المهدي، وكان ابن ستين سنة، وهو على قضاء المهدي، ثم ولى بعده أَبُو يوسف.

تهذيب التهذيب للابن حجر العسقلاني: (27/12، ط: دائرة المعارف النظامية)
وقال الدوري ومعاوية بن صالح عن ابن معين ليس حديثه بشيء وقال الغلابي عن ابن معين ضعيف الحديث وقال ابن المديني كان ضعيفا في الحديث وقال مرة كان منكر الحديث هو عندي مثل بن أبي يحيى وقال الجوزجاني يضعف حديثه وذكره يعقوب بن سفيان في باب من يرغب في الرواية عنهم وقال البخاري ضعيف وقال مرة منكر الحديث وقال النسائي متروك الحديث وقال ابن عدي عامة ما يرويه غير محفوظ وهو في جملة من يضع الحديث ....وقال ابن حبان كان ممن يروي الموضوعات عن الثقات لا يجوز الاحتجاج به وقال أبو إسحاق الحربي غيره أوثق منه وقال الساجي عنده منا كير وقال أبو أحمد الحاكم في الكنى أبو بكر محمد بن عبد الله بن أبي سبرة ولي القضاء لزياد الحارثي ثم ولي القضاء لموسى يعني الهادي وهو ولي عهد وليس بالقوي عندهم وقال الحاكم أبو عبد الله يروي الموضوعات عن الاثبات مثل هشام بن عروة وغيره.

الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوكاني: (ص: 51، ط: دار الكتب العلمية)
وَلابْنِ حِبَّانَ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ: إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا.
ضَعِيفٌ

القَولُ البَدِيعُ للسخاوي: (ص: 472، ط: موسسة الريان)
قال شيخ الإسلام أبو زكريا النووي - رحمه الله - في الأذكار قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً .....وقد سمعت شيخنا مراداً يقول وكتبه لي بخطه أن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة، الأول متفق عليه أن يكون الضعف غير شديد فيخرج من أنفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه، الثاني أن يكون مندرجاً تحت أصل عام فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل أصلاً، الثالث أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - ما لم يقله 

تحفة الاحوذی: (باب ما جاء فی لیلة النصف من شعبان، 365/3، ط: دار الكتب العلمية)
 ”اعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ وَرَدَ فِي فَضِيلَةِ لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ عِدَّةُ أَحَادِيثَ مَجْمُوعُهَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ لَهَا أَصْلًا۔۔۔۔ فَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ بِمَجْمُوعِهَا حُجَّةٌ عَلَى مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ فِي فَضِيلَةِ لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ شَيْءٌ
 
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 673 Apr 09, 2020
Nisf, Shaban, Shaaban, ki, fazilat, fazeelat, say, sai, mutaaliq, muta'aliq, hazrat, ali, raziallahuanho, say, marwi, ki, riwayat, ki, tehqeeq, tahqeeq, Research on the narration from Hazrat Ali regarding the virtue of half of Sha'ban, Mid Shaban, Sha'aban

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.