عنوان: "حضرت بلالؓ کی "سین" اللہ تعالی کے نزدیک "شین" ہے" حدیث کی تحقیق اور حکم(4017-No)

سوال: لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زبان میں لکنت تھی، اور کہتے ہیں کہ حدیث میں آتا ہے کہ "حضرت بلال کی شین اللہ کے نزدیک سین ہے" اس کے بارے میں رہنمائی فرمادیں۔

جواب: حضرت بلال کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی زبان میں لکنت تھی، جس کی وجہ سے آپ شین کو سین پڑھتے تھے
اور اس ضمن میں ایک واقعہ بھی عموماً بیان کیا جاتا ہے کہ بعض یہودیوں نے طعنہ دیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے مؤذن ایسا رکھا ہے، جسے شین اور سین کی تمیز نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے سے منع کردیا تو اس روز صبح نہیں ہورہی تھی، پھر صحابی نے بارگاہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوکر رات کے حوالے سے عرض کیا، پھر جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور فرمایا: جب تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان نہیں دیں گے، صبح نہیں ہو گی تو پھر حضرت بلال نے اذان دی تو صبح ہوئی۔
اور یہ بھی بیان کیاجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کا سین بھی اللہ تعالی کے نزدیک شین ہے۔
واقعہ کی تحقیق
مذکورہ بالا واقعہ کو بعض مقررین بیان کرتے ہیں، مگر باوجود اس شہرت کے کسی بھی صحیح یا ضعیف سند سے حدیث کی کتابوں میں موجود نہیں ہے۔
اور اس ضمن میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ حضرت بلال کی "سین” اللہ تعالی کے نزدیک "شین” ہے-
یہ روایت بھی محدثین کرام کے نزدیک من گھڑت اور بے اصل ہے۔
علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ
" كانَ مِنْ أَفْصَحِ النَّاسِ، لَا كَمَا يَعْتَقِدُهُ بَعْضُ النَّاسِ أَنَّ سِينَهُ كَانَتْ شِينًا، حَتَّى إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ يَرْوِي حَدِيثًا فِي ذَلِكَ لَا أَصْلَ لَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ سِينَ بِلَالٍ عِنْدَ اللَّهِ شِينٌ ۔
(البداية والنهاية،ج:5، ص: 333، ط: دارالفکر بیروت )
ترجمہ:
حضرت بلال فصیح و بلیغ انسان تھے اور جو بات لوگوں نے گھڑلی ہے کہ حضرت بلال کی زبان میں لکنت تھی، یہاں تک کہ ایک روایت بیان کر ڈالی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کا سین بھی اللہ تعالی کے نزدیک شین ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے-
علامہ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہےاور اگر ایسا ہوتا تو حضور علیہ السلام انہیں موذن ہی کیوں کر بناتے اور یوں تو دشمنانِ اسلام کو بہت کچھ کہنے کا موقع مل جاتا، اس لیے مذکورہ واقعہ بیان کرنے سے اجتناب لازم ہے۔
علامہ عجلونی نے" كشف الخفاء ومزيل الإلباس" میں اس روایت کو لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطی نے الدرر میں فرمایا کہ امہات الکتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا اور ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ جمال الدین مزی سے نقل کرتے ہوئے شیخ برہان سفاقسی فرماتے ہیں کہ عوام کی زبان پر تو ایسا مشہور ہے، لیکن اصل کتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا-
علامہ بدر الدین زرکشی نے"التذکرۃ فی الأحاديث المشتھرۃ "میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حافظ جمال الدین مزی فرماتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبان پر تو مشہور ہے، لیکن اس بارے میں ہم نے امہات الکتب میں کچھ بھی نہیں دیکھا اور اس روایت کے بارے میں شیخ برہان الدین سفاقسی کا بھی یہی قول ہے۔
اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ یہ روایت من گھڑت اور بے اصل ہے، بلکہ درست یہ ہےکہ حضرت بلال فصیح و بلیغ اور خوبصورت آواز کے مالک تھے، جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ
جب عبد اللہ بن زید نے اذان کے متعلق اپنا خواب سنایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خواب سن کر ان کو حکم دیا:
"فقم مع بلال فالق عليه ما رايت فليؤذن به فإنه اندى صوتا منك۔۔۔"(سنن ابی داود، حدیث نمبر: 499۔ سنن ترمذی،حدیث نمبر: 189 )
ترجمہ:
” تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں، وہ انہیں بتاتے جاؤ، تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں، کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند اور خوبصورت ہے۔
سنن ابی داود کی اس روایت میں "فإنه اندى صوتا منك" کے الفاظ ہیں اور ترمذی کی روایت میں" فإنه أندى وأمد صوتا منك" کے الفاظ ہیں۔
علامہ شوکانی نے "نیل الاوطار" میں "فإنه أندى صوتا منك" کے معنی لکھے ہیں : أي أحسن صوتاً منك ..
یعنی بلال خوبصورت آواز کے مالک ہیں۔
إمام ابن الأثير نے النھایة میں لکھا ہے۔أي أرفع وأعلى وقيل : أحسن وأعذب .یعنی بلال بلند و بالا اور میٹھی دلکش آواز کے مالک ہیں۔
خلاصہ کلام:
حضرت بلال رضی اللہ عنہ انتہائی فصیح و بلیغ تھے اور بہت خوب صورت، بلند و بالا اور شرین اور دلکش آواز کے مالک تھے اور یہ کہنا کہ " ان کی زبان میں لکنت تھی " سراسر غلط ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المقاصد الحسنة للسخاوي: (397/1، ط: دار الکتاب العربی)
حَدِيث: سِينُ بِلالٍ عِنْدَ اللَّه شِينٌ، قال ابن كثير: إنه ليس له أصل، ولا يصح، وكذا سلف عن المزي في: إن بلالا، من الهمزة، ولكن قد أورده الموفق ابن قدامة في المغني بقوله: روي أن بلالا كان يقول أسهد، يجعل الشين سينا، والمعتمد الأول، وقد ترجمه غير واحد بأنه كان ندي الصوت حسنه فصيحه، وقال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لعبد اللَّه بن زيد صاحب الرؤيا: ألق عليه، أي على بلال، الأذان، فإنه أندى صوتا منك، ولو كانت فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها، ولعابها أهل النفاق والضلال، المجتهدين في التنقص لأهل الإسلام

التذکرۃ للزرکشی: (208/1، ط: دار الکتب العلمیة)
قَالَ الْحَافِظ جمال الدّين الْمزي اشْتهر على أَلْسِنَة الْعَوام ان بِلَالًا رَضِي الله عَنهُ كَانَ يُبدل الشين فِي الآذان سينا وَلم نره فِي شَيْء من الْكتب كَذَا وجدته عَنهُ بِخَط الشَّيْخ برهَان الدّين السفاقسي

كشف الخفاء و مزيل الإلباس للعجلوني: (258/1، ط: المکتبة العصریة)
بلالًا كان يبدل الشين في الأذان سينًا
قال في الدرر: لم يرد في شيء من الكتب، وقال القاري: ليس له أصل، وقال البرهان السفاقسي نقلا عن الإمام المزي: إنه اشتهر على ألسنة العوام ولم يرد في شيء من الكتب, وسيأتي الكلام عليه بأبسط من هذا في سين بلال عند الله شين.

التخريج الصغير و التحبير الكبير لابن المِبْرَد الحنبلي: (109/3، ط: دار النوادر)
حديث: "سِينُ بِلالٍ عِنْدَ الله شِينٌ" قال المزي: ما اشتهر علي ألسنة العوام من أن بلالًا- رضي الله عنه- كان يبدِلُ الشينَ في الأذان سِينًا، لم يردْ في شيء من الكتب

نيل الأوطار للشوكاني: (47/2، ط: دار الحدیث)
قَوْلُهُ: (فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ) أَيْ أَحْسَنُ صَوْتًا مِنْك.

النهاية في غريب الحديث و الأثر لابن الأثير: (37/5، ط: المکتبة العلمیة)
وَفِي حَدِيثِ الْأَذَانِ «فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا» أَيْ أرفعُ وَأَعْلَى. وَقِيلَ: أحسنُ وَأَعْذَبُ.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 4443 Apr 11, 2020
kia hazrat Bilal ki zuban main luknat thi?, Was there any stammering in the tongue of Hazrat Bilal?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.