عنوان: تین دن تاخیر کی صورت میں پورے دن کی تنخواہ کاٹنے کا حکم (4024-No)

سوال: مفتی صاحب ! اگر حکومت کا وہ قانون ہو کہ جو تین دن تاخیر سے آئے گا، اس کی ایک دن کی تنخواہ کٹے گی،تو کیا ہم اپنے آفس میں اس قانون پر عمل کرسکتے ہیں؟

جواب: واضح رہے کہ ملازم کے تین دن تاخیر سے آنے کی صورت میں صرف تاخیر کے بقدر ہی تنخواہ کاٹی جاسکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں، پورے ایک دن کی تنخواہ کاٹنا مالی جرمانہ ہے، جو کہ شرعا جائز نہیں ہے، لہذا اگر حکومتی قانون میں ایک دن کی تنخواہ کاٹنے کی ممانعت نہ ہو، تب بھی چونکہ شریعت کی طرف سے اس سے منع کردیا گیا ہے، اس لئے ایسا کرنا جائز نہیں، اور اس سے اجتناب لازم ہے۔
اگر تاخیر کے بقدر تنخواہ کاٹنے کے باوجود ملازمین کی وقت پر حاضری نہ ہورہی ہو، تو انہیں وقت کا پابند بنانے کیلئے کوئی اور جائز تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے، مثلاً: ملازمین کیلئے نظم وضبط اور اوقات کی پابندی کا الاؤنس (Punctuality Allowance) مقرر کیا جا سکتا ہے کہ جو ملازم پورا مہینہ وقت پر آئے گا، اسے مثلاً ایک ہزار روپیہ الاؤنس دیا جائے گا اور جو تین دن تاخیر سے آئے گا، اسے یہ الاؤنس نہیں ملے گا۔ یہ الاؤنس چونکہ تنخواہ کے علاوہ ہوگا، جو ملازم کا حق نہیں تھا، بلکہ ادارے کی طرف سے تبرع و احسان ہے، اور تبرع میں انسان کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسے کسی شرط کے ساتھ مشروط کر سکتا ہے، اس لئے تین دن تاخیر کی صورت میں سارا الاؤنس ضبط کرنا جائز ہوگا۔
اسی طرح ملازمین کو پابند کرنے کیلئے اس کے علاوہ کوئی اور بھی جائز تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المحيط البرهاني: (743/7)
وفيه أيضاً: آجر حمّاماً سنة ببدل معلوم على أن يحط عنه أجر شهرين للتعطيل، فالإجارة فاسدة؛ لأن هذا شرط بغير مقتضى العقد؛ لأن مقتضاه لا يلزمه أجرة أيام التعطيل شهراً كان أو أكثر أو أقل فتحكمه بحط أجرة شهرين يخالف مقتضى العقد، حتى لو قال: على أن مقدار ما كان معطلاً فلا أجر عليه فيه يجوز لك، هذا يوافق مقتضى العقد ويقرره. وهو نظير ما قال في «الجامع الصغير» إذا اشترى زيتاً على أن يحط عنه لأجل الرق خمسون رطلاً لا يجوز، ولو قال على أن يحط مقدار وزن الرق جاز.

مجلة الاحکام العدلیة:
الاجیر الخاص یستحق الاجرة اذا کان فی مدة الاجارة حاضرا للعمل ولا یشترط عملہ بالفعل، ولکن لیس لہ یمتنع من العمل واذا امتنع فلا یستحق الاجرة۔

اعلاء السنن: (باب التعزیر بالمال، 733/11، ط: بیروت)
التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی :{فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 960 Apr 14, 2020
teen din taakheer ki soorat mai pooray din ki tankhuwah / salary ka hukum , Ruling on / Order to deduct full day's salary in case of three days late coming / delay

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.