سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! نومولود کے کان میں دی جانے والی اذان اور اقامت کا طریقہ بتانے کے ساتھ یہ بتا دیں کہ بچے کے کان میں دی جانے والی اذان میں قد قامت الصلوة کہنا ضروری ہے؟
مزید یہ بھی بتائیں کہ اگر والد پاکستان میں نہ ہو، تو کیا وہ موبائل کے ذریعہ بچے کے کان میں اذان دے سکتا ہے؟
جواب: بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا سنت ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو، تو نہلانے کے بعد بچہ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائیں اور قبلہ رُخ ہوکر پہلے بچے کے دائیں کان میں اذان اور پھر بائیں کان میں اقامت کہیں۔ "حي علی الصلاة" اور "حي علی الفلاح" کہتے ہوئے دائیں بائیں چہرہ بھی پھیریں، البتہ دورانِ اذان کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔
بچے کے کان میں اذان دینے کا سنت طریقہ یہی ہے کہ براہ راست اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے، اور عبادات کے باب میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ حتی الامکان اس کی اصل شکل کو باقی رکھا جائے، چنانچہ موبائل فون کال کے ذریعہ بچہ کے کان میں اذان دینے سے یہ سنت طریقہ فوت ہوجائے گا، اس لیے بلا عذرِ شدید اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، ہاں ! اگر کسی شدید عذر کی وجہ سے بچے کے کان میں براہِ راست فوری طور پر اذان نہ دی جاسکتی ہو تو موبائل فون کال کے ذریعہ اذان دینے کی گنجائش ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (385/1)
"(لا) يسن (لغيرها) كعيد
(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم..."الخ
و فیه ایضاً: (387/1)
"(ويلتفت فيه) وكذا فيها مطلقاً، وقيل: إن المحل متسعاً (يميناً ويساراً) فقط؛ لئلايستدبر القبلة (بصلاة وفلاح) ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقاً.
(قوله: ولو وحده إلخ) أشار به إلى رد قول الحلواني: إنه لايلتفت لعدم الحاجة إليه ح. وفي البحر عن السراج: أنه من سنن الأذان، فلايخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود: ينبغي أن يحول. (قوله: مطلقاً) للمنفرد وغيره والمولود وغيره ط".
مرقاۃ المفاتیح: (باب الاذان، 414/1)
وقال ابن حجر....الاذان الذی یسن لغیر الصلاۃ کالاذان فی اذن المولود الیمنی والاقامہ فی الیسری۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی