سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب !
اگر ایک آدمی کی وفات مثلاً پچاس سال کی عمر میں ہو، اور اس کی نمازیں اور روزے بھی قضا ہوئے ہوں، تو سنا ہے کہ نابالغی کی عمر کو ہٹا کر ایک اندازہ لگایا جائے کہ اس کی کتنی نمازیں اور روزے قضا ہوئے ہوں گے اور پھر ہر نماز یا روزے کے بدلے ایک صدقۃ الفطر کی رقم کسی غریب کو دے دی جائے، تو اس سے مرحوم کا ذمہ ادا ہو جائے گا، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے، اور اس کے ذمہ قضا نمازیں اور روزے باقی ہوں، اور اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو، تو ورثاء پر لازم ہوگا کہ اس کے ایک تہائی ترکہ میں سے نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کریں، اور اگر اس نے وصیت نہیں کی ہو، تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ ورثاء اگر میت کی طرف سے فدیہ ادا کرنا چاہیں، تو ورثاء کے ادا کرنے سے فدیہ ادا ہوجائے گا، اور یہ میت پر بڑا احسان ہوگا۔
اور قضاء نماز اور روزوں کے فدیہ کا مصرف وہی ہے، جو زکوة کا مصرف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 184)
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ....الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (72/2، ط: دار الفکر)
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.
واعلم أيضا أن المذكور فيما رأيته من كتب علمائنا فروعا وأصولا إذا لم يوص بفدية الصوم يجوز أن يتبرع عنه وليه.
الھندیة: (الباب الثامن فی صدقة الفطر، 194/1، ط: دار الفکر)
ومصرف ھذہ الصدقۃ ما ھو مصرف الزکاۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی